1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل ملٹری ہسپتال کے نزدیک حملے، کم از کم 19 ہلاکتیں

2 نومبر 2021

کابل میں ایک ملٹری ہسپتال کے داخلی دروازے کے نزدیک دو بم دھماکے اور شدید فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 19 افراد کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

Kabul, Afghanistan | Explosionen in der Nähe von Militärkrankenhaus
تصویر: Bilal Guler/AA/picture alliance

 

ابتدائی طور پر دہشت گردی کے ان واقعات کے نتیجے میں ممکنہ ہلاکتوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔

منگل دو نومبر کو طالبان حکام اور عینی شاہدین کی طرف سے کہا گیا کہ کابل میں قائم افغانستان کے سب سے بڑے ملٹری ہسپتال کے نزدیک کم از کم دو زوردار دھماکوں کے بعد شدید فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ ابتدائی طور پر افغانستان کی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان قاری سعید خوستی نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ دھماکے سردار محمد داؤد خان کے ہسپتال کے داخلی دروازے پر ہوئے۔ اس ہسپتال میں مریضوں کے لیے 400 بستروں کا انتظام ہے۔ وزارت داخلہ کے ترجمان نے اپنے ٹویٹ پیغام میں تحریر کیا،'' سکیورٹی فورسز کو جائے وقوعہ اور ارد گرد کے علاقوں میں تعینات کر دیا گیا ہے تاہم اب تک ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘‘

کابل ڈرون حملہ: ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے زر تلافی کا امریکی وعدہ

دھماکوں کی شدت کا اندازہ اس علاقے کے رہائشیوں کی طرف سے شیئر کی گئی تصاویر سے ہوتا ہے، جن میں دور دور تک سیاہ بادل دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دراصل کابل کے سابق سفارتی زون کے نزدیک کا ایک علاقہ ہیں۔

 فوری طور پر ان دہشت گردانہ واقعات کی کسی نے بھی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم افغانستان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی باختر نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس کے متعدد جنگجو ہسپتال میں داخل ہوئے اور ان کی سکیورٹی  اہلکاروں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔

افغانستان: ایک اور شیعہ مسجد پر خودکش حملہ، متعدد ہلاکتيں

کابل کا ملٹری ہسپتال دہشت گردی کے نشانے پرتصویر: AFP

دہشت گردی کے واقعات کی فہرست بڑھتی ہوئی

ان تازہ ترین دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات ملک سے امریکی اور دیگر اتحادی افواج کے انخلا کے بعد سے ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہے۔ دہشت گردی اور شورش خاص طور سے اُس وقت سے بڑھتی دکھائی دی جب طالبان نے گزشتہ اگست میں کابل کی مغربی حمایت یافتہ حکومت کا خاتمہ کرنے اور اپنی مکمل فتح کے دعوے شروع کیے۔ دوسری جانب  افغانستان میں آئے دن ہونے والے دہشت گردانہ واقعات سے  طالبان کے ملک میں سکیورٹی بحال کرنے کے دعوؤں کی مسلسل تردید ہو رہی ہے۔  2017 ء میں بھی 400 بستروں پر مشتمل ہسپتال پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کابل میں خونریز حملہ ایک المناک غلطی تھی، پینٹاگون

عینی شاہد کا بیان

اس تازہ ترین دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ہسپتال کا ایک ہیلتھ ورکر نے بتایا کہ اُسے پہلے ایک زوردار دھماکہ سنائی دیا جس کے چند منٹوں بعد فائرنگ کی آوازیں آئیں۔ قریب دس منٹ بعد ہی دوسرا اور پہلے سے زیادہ زوردار دھماکہ ہوا۔

دھماکوں کے بعد طالبان کے سکیورٹی اہلکار تعیناتتصویر: Sayed Khodaiberdi Sadat /AA/picture alliance

اس ہیلتھ ورکر کا تاہم کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دھماکے اور فائرنگ ہسپتال کے کمپاؤنڈ کے اندر ہوئے یا نہیں؟

کابل کے علاقے وزیر اکبر خان کے اس ملٹری ہسپتال میں ہونے والے دھماکوں کے بعد ایک غیر سرکاری تنظیم یا این جی او نے کہا تھا کہ کم از کم 9 زخمی افراد کو ہسپتال پہنچایا گیا ہے۔

افغانستان میں امن کوششیں، پاکستان میں بدامنی؟

ابتدائی طورپر طالبان حکومت کے ایک نائب ترجمان بلال کریمی نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ 400 بستروں پر مشتمل داؤد خان ملٹری ہسپتال کے داخلی دروازے کے نزدیک ایک دھماکہ ہوا ہے۔

دہشت گردی کے ان واقعات کی مزید تفصیلات ابھی سامنے آ رہی ہیں۔ تازہ ترین خبروں سے کم از کم 9 افراد کی ہلاکت اور 50 سے زائد کے زخمی ہونے کی 

ک م/ ع ا  / روئٹرز۔ ڈی پی اے   

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں