کابل میں بین الاقوامی امن کانفرنس
28 فروری 2018جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق سخت سکیورٹی کے حصار میں ہونے والے اس اجلاس میں پچیس ممالک کے نمائندے اور تین بین الاقوامی تنظیموں کے وفود شریک ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا اور 16 سالہ افغان جنگ کا کسی طریقے سے خاتمہ کرنا بتایا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر بھی غور کیا جائے گا۔
امریکی اعداد وشمار کے مطابق طالبان افغانستان کے 13 فیصد حصے پر قابض ہیں جبکہ دیگر اندازوں کے مطابق افغانستان کا چالیس فیصد تک علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ طالبان افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے مسلسل انکار کرتے چلے آئے ہیں، جسے وہ ایک ’’کٹھ پتلی حکومت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس کی بجائے طالبان کا مطالبہ ہے کہ وہ امریکا سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج میں امریکا کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ تاہم واشنگٹن اور بین الاقوامی برادری کا اصرار ہے کہ افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے۔
طالبان کو جائز سیاسی طاقت تسلیم کرنے کو تیار ہیں، اشرف غنی
افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو ایک جائز سیاسی طاقت تسلیم کرنے کی پیش کش کی ہے۔ ان کی یہ پیش کش افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ افغانستان میں گزشتہ سولہ برس سے جاری خانہ جنگی کا خاتمہ ہو سکے۔
کابل میں آج بدھ کے روز ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر افغان صدر کا کہنا تھا کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے ساتھ ساتھ طالبان کے قیدیوں کو بھی رہا کرنے پر تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو وہ اس معاہدے کے تحت افغانستان کے آئین پر نظر ثانی کے لیے بھی تیار ہیں۔ افغان صدر ماضی میں بھی متعدد مرتبہ طالبان کو امن مذاکرات کی پیش کش کرتے آئے ہیں۔
آج 28 فروری کو ہونے والی ایک روزہ بین الاقوامی امن کانفرنس میں شرکت کے لیے طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا۔