1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل میں خاتون کی لرزہ خیز ہلاکت، نو افراد گرفتار

عاطف بلوچ20 مارچ 2015

افغانستان میں توہین قران کی مبینہ ’بے حرمتی‘ کے الزام میں ہلاک کر دی جانے والی ایک خاتون کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ذہنی مریضہ تھی۔ پولیس نے اس واقعے کے تحقیقات کرتے ہوئے نو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Morenatti

کابل شہر میں جمعرات 19 مارچ کی شام رونما ہونے والے اس لرزہ خیز واقعے کے تفصیلات بتاتے ہوئے اعلیٰ سرکاری عہدیدار محمد فرید افضلی نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا ہے کہ ہلاک کی جانے والی خاتون کا نام فرخندہ تھا اور اس کی عمر ستائیس برس تھی۔ بتایا گیا ہے کہ جمعرات کی شام کابل کی مشہور مسجد شاہ دو شامشیرا کے قریب مشتعل ہجوم نے اس خاتون کو ہلاک کیا اور پھر اس کی لاش کو جلا کر دریائے کابل میں پھینک دیا۔ مقامی میڈیا کے مطابق یہ خاتون مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے کچھ صفحات نذر آتش کرنے کی مرتکب ہوئی تھی۔

محمد فرید افضلی نے البتہ کہا ہے کہ اس بہیمانہ واقعے کے محرکات ابھی تک معلوم نہیں ہو سکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان صدر اشرف غنی کی خصوصی ہدایات پر حقائق تک پہنچنے کے لیے تحقیقاتی عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب ہجوم نے اس خاتون پر حملہ کیا تو پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے ہوائی فائرنگ بھی کی تاکہ انہیں منشتر کیا جاسکے لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے بھی کہا ہے کہ یہ خاتون گزشتہ چار برسوں سے کسی نامعلوم نفسیاتی عارضے کا علاج کرا رہی تھی۔

کابل کی مشہور مسجد شاہ دو شامشیرا کے قریب مشتعل ہجوم نے اس خاتون کو ہلاک کیا اور پھر اس کی لاش کو جلا کر دریائے کابل میں پھینک دیا۔تصویر: MUNIR UZ ZAMAN/AFP/Getty Images

اس خاتون کی ہلاکت کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آ گئی ہیں، جو وہاں ہجوم میں موجود لوگوں نے اپنی موبائل فونز سے بنائی تھیں۔ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس خاتون کو تھپڑوں، مکُوں، لاتوں اور پتھروں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ افغانستان میں خواتین پر تشدد اگرچہ عام ہے لیکن وہاں کسی خاتون پر مشتعل ہجوم کی طرف سے ایسا بھیانک حملہ ماضی میں شاذونادر ہی دیکھنے میں آیا ہے۔

میڈیا پر اس واقعے کی خبریں نشر ہونے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے وزارت داخلہ اور ملکی مذہبی امور کی اتھارٹی علماء کونسل کو خصوصی ہدایات جاری کر دی ہیں کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات میں معاونت کریں۔ غنی کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں مزید کہا گیا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جج اور عدالت کے اختیارت اپنے ہاتھوں میں لے۔ بیان کے مطابق کسی شخص کو کسی دوسرے پر اس طرح تشدد کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، چاہے وہ قصووار ہی کیوں نہ ہو۔

دوسری طرف علماء کونسل کے سربراہ احمد علی جبرائیلی نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ صدر غنی نے گزشتہ برس اپنی صدارتی مہم میں صنفی برابری کو انتہائی زیادہ اہمیت دی تھی جبکہ صدر کے عہدے پر براجمان ہونے کے بعد اپنی اہلیہ رُولا غنی کو افغان روایت سے ہٹ کر خاتون اول کا درجہ دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں