کابل میں علماء کے اجتماع پر خودکش حملہ، پچاس سے زائد ہلاکتیں
20 نومبر 2018
افغانستان کے دارالحکومت میں کیے گئے ایک خودکش حملے میں کم از کم پچاس افراد مارے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق خودکش حملہ آور کا نشانہ مذہبی علماء کا اجتماع تھا۔ اس تقریب میں کثیر تعداد میں دوسرے لوگ موجود تھے۔
اشتہار
افغان وزارت صحت کے مطابق کابل میں پیغمبر اسلام کے پیدائش کے دن کی خصوصی تقریب میں کیے گئے حملے کی ہلاکتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ عید میلا النبی کے اجتماع میں افغان علما عقیدت مندوں کے ساتھ شریک تھے۔ اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی گئی ہے۔ کابل کے طبی و سکیورٹی ذرائع نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سینکڑوں علماء کے اجتماع پر کیا گیا یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ دو دوسرے حکومتی ذرائع نے بھی خود کش حملے کی تصدیق کی ہے۔ میلادِ نبی کی تقریب ایک شادی ہال میں منعقد کی جا رہی تھی کہ خودکش حملہ آور نے اندر پہنچ کر اپنی بارودی جیکٹ کو اڑا دیا۔
تقریب کا مقام یورینس ویڈنگ ہال تھا اور اس وسیع ہال میں پہلے بھی سیاسی و مذہبی تقریبات منعقد ہوتی رہی ہیں۔ خیال رہے کہ ماضی میں بھی طالبان اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے حکومت کے حامی علماء کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے سرگرم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے رواں برس جون میں کابل ہی میں اعلیٰ علماء کے ایک جلسے پر خودکش حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں سات افراد ہلاک اور بیس زخمی ہوئے تھے۔
عید میلاد النبی کے جلسے میں کیے گئے خودکش حملے میں ہلاکتوں کے علاوہ زخمی ہونے والوں کی تعداد ستر بتائی گئی ہے۔ اس مذہبی جلسے میں علماء کے علاوہ قریب ایک ہزار لوگ شریک تھے۔ دھماکے کے مقام پر امدادی کارروائیوں کا سلسلہ فوری طور پر شروع کر دیا گیا تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری تعداد بھی دھماکے کے مقام کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ ابھی تک کسی تنظیم یا گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
افغان دارالحکومت میں کابل میں آج بیس نومبر کے خودکش حملے کو ہولناک ترین حملہ قرار دیا گیا ہے۔ ستمبر میں کابل کے ایک کسرتی مرکز پر کیے گئے حملے میں چھبیس افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
کابل پھر لرز اٹھا
افغان دارالحکومت کابل میں ہوئے تازہ کار بم حملے کے نتیجے میں چار سو سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا ہے کہ یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
یہ حملہ زنباق اسکوائر کے نزدیک ہوا، جہاں قریب ہی حکومتی دفاتر کے علاوہ افغان صدر کا دفتر بھی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
اس ٹرک بم حملے کے نتیجے میں کم از کم اسّی افراد ہلاک جبکہ ساڑھے تین سو زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
دھماکے کے بعد جائے حادثہ سے اٹھنے والے دھوئیں کے بادلوں نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
تصویر: Reuters/H. Sayedi
افغان طالبان نے کابل میں ہونے والے تازہ بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے ایک ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح حکومت کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے تصدیق کر دی ہے کہ کابل میں ہوئے اس حملے کی وجہ سے وہاں واقع جرمن سفارتخانہ بھی متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں عمارت کے باہر موجود افغان سکیورٹی گارڈ مارا گیا جبکہ عملے کے دیگر مقامی ارکان بھی زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
دھماکے کی شدت کو دیکھتے ہوئے ملکی وزارت صحت نے خدشہ ظاہر ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
اس دھماکے کی وجہ سے تیس گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں جبکہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
طبی ذرائع کے مطابق اس بم حملے میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
فرانسیسی وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس دھماکے کے باعث کابل میں فرانس کے سفارتخانے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
پاکستان کی طرف سے بھی اس خونریز کارروائی پر کابل حکومت کے ساتھ اظہار افسوس کیا گیا ہے۔