لاکھوں ڈالر کی قیمت سے تعمیر کیے گئے ان بنگلوں کو ’پوست محلات‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خدشات ظاہر کیے جاتے ہیں کہ ان کی تعمیر اُس غیرقانونی پیسے سے کی گئی ہے، جو نائن الیون حملوں کے بعد افیون کی غیرقانونی کاشت سے حاصل ہوا ۔ تاہم شیر پور کے ان محلات نما بنگلوں میں آپ بھی رہائش پذیر ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو ماہانہ پچیس سے ساٹھ ہزار ڈالر ( چھبیس سے اکسٹھ لاکھ روپے) کرایہ ادا کرنا ہوگا۔
کابل کے علاقے شیر پور میں واقع محلات نما یہ گھر سن دو ہزار ایک میں امریکی حملے کے بعد تعمیر کیے گئے تھے۔ آج سے دو سال پہلے تک کابل میں غیر ملکی ٹھیکیداروں، امدادی ایجنسیوں اور سکیورٹی کمپنیوں کی بھیڑ تھی اور انہیں عیش و آرام کے لیے ایسی ہی رہائش گاہوں کی ضرورت تھی۔ دو برس پہلے ان مکانوں کی مالیت بھی آج کے مقابلے میں دو گنا زیادہ تھی۔ لیکن نیٹو افواج کی واپسی کے بعد کابل سے غیر ملکی آہستہ آہستہ اپنے ملکوں کی طرف واپس روانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ حالات غیر مستحکم ہوتے جا رہے ہیں اور طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کی وجہ سے رئیل اسٹیٹ کا بزنس زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے۔ اب شیر پور میں جگہ جگہ ’کرایے کے لیے خالی ہے‘ ایسے سائن بورڈ پڑے جا سکتے ہیں۔
افغانستان: ایک نہ ختم ہونے والی جنگ
افغانستان، دنیا کا تیسرا بدعنوان ترین ملک: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
کابل میں کام کرنے والے اسٹیٹ ایجنٹ عبدالطیف کا ایک باون کمروں والی عالیشان عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’مارکیٹ صفر کے قریب پہنچ چکی ہے۔‘‘ باون کمروں والے گھر کی گرد اونچی اونچی مضبوط دیواریں بنی ہوئی ہیں جبکہ مالک مکان کے مطابق یہ بم پروف بھی ہے، اس کے باوجود یہ گھر گزشتہ چھ ماہ سے خالی ہے۔ لطیف کے مطابق اب ایسی عمارتوں کی ڈیمانڈ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس علاقے کے خالی گھر روز بروز خراب ہوتی ہوئی افغان معیشت کی طرف کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ مقامی مبصرین کے مطابق ملکی معیشت اب ’ڈالر معیشت سے افغان معیشت‘ کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ اصل میں اب تک افغان معیشت بین الاقوامی امداد کے سہارے چلتی آئی ہے اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد اس امداد میں بھی بتدریج کمی آ رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کی معیشت ایسے ہی ہے، جیسے کومے میں گئے ہوئے کسی مریض کو برسوں تک گلوکوز کے ذریعے زندہ رکھا جائے اور اچانک کسی روز اس کی ادویات ختم کرتے ہوئے اسے دوڑ لگانے کا کہا جائے۔ شیر پور کو افغانستان میں کرپشن کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے مقامی زبان میں سے اس علاقے کو شیر پور کی بجائے ’شیر چور‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے یہ عالیشان مکان کیسے بنائے گئے، ان کے لیے سرمایہ کدھر سے آیا ؟ تجزیہ کاروں کے مطابق افیون کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کابل میں لگائی گئی۔
کابل میں بشیر رئیل اسٹیٹ کے مالک بشیر عمر کا کہنا ہے، ’’آپ خود اس بارے میں سوچیے، کوئی سرکاری بیوروکریٹ، جس کی ماہانہ تنخواہ دو لاکھ روپے ہے، وہ کیسے پچیس لاکھ ڈالر کا بنگلہ افورڈ کر سکتا ہے اور وہ بھی وہاں، جہاں صرف جگہ کی قیمت دس لاکھ ڈالر سے زائد ہے۔‘‘ بشیر کے مطابق ان لوگوں سے سوال ہونا چاہیے کہ ان کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا ہے ؟ تاہم جونہی باون کمروں والے بنگلے کے مالک سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔
بشیر کے مطابق ملکی اشرافیہ منی لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ ملک سے باہر لے جا رہی ہے لیکن حکومت ان کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے سے قاصر ہے۔ امریکا میں بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ایک سینئر فیلو اور بحران زدہ ملکوں کی اقتصادیات کی ماہر وانڈا فیلباب کہتی ہیں، ’’افغانستان سے خطرناک حد تک پیسہ بیرون ملک، خاص طور پر دبئی، ترکی، پاکستان اور بھارت اسمگل کیا جا رہا ہے۔‘‘
فیلباب کہتی ہیں کہ کابل کے ’پوست محلات‘ گزشتہ ایک دہائی کے غیر مساوی فوائد اور جنگ کے اخراجات کی غیر مساوی تقسیم کی علامت ہیں۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaگیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpaان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpaطالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Imagesبائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaچھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaجنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photoاکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpawebچار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpaانیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaاٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpaدو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Imagesجنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Imagesاٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpaافغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔
تصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images