افغان دارالحکومت کابل میں واقع پشتو زبان کے نجی شمشاد ٹیلی وژن پر حملہ کیا گیا ہے۔ اس ٹیلی وژن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ٹیلی وژن کی عمارت کے اندر موجود متعدد افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ اس ادارے میں کام کرنے والے ملازمین نے ٹیلی فون کال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عمارت میں موجود مسلح حملہ آوروں کی تعداد دو سے پانچ تک ہو سکتی ہے۔
کابل میں پولیس کے ترجمان بشیر مجاہد نے بھی متعدد ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ان کے مطابق فی الحال ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پولیس کے مطابق پہلے ٹی وی اسٹیشن کے گیٹ پر ایک خودکش دھماکا کیا گیا اور اس کے بعد حملہ آور عمارت میں داخل ہو گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایک حملہ آور کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا تھا جبکہ دیگر ہینڈ گرنیڈ پھینکتے ہوئے عمارت کے اندر داخل ہوئے۔
اس حملے کے بعد شمشاد ٹیلی وژن کی نشریات بند کر دی گئی ہیں۔ ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے لیکن طالبان نے فوری طور پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ ان کی طرف سے نہیں کیا گیا۔ افغان صحافیوں اور میڈیا کے خلاف ہونے والا یہ تازہ ترین حملہ ہے۔ گزشتہ برس ایک خودکش حملے میں طلوع ٹیلی وژن کے سات ملازمین ہلاک ہو گئے تھے۔
اس ٹیلی وژن کے ایک کیمرہ مین نے بتایا ہے کہ انہیں ابھی تک فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpaیہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpaستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelovاس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFPاس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFPسن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.
تصویر: Getty Images/AFP