1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل میں پاکستانی سفارتی مشن پر حملہ

2 دسمبر 2022

افغان دارالحکومت کابل میں آج جمعہ دو دسمبر کو پاکستانی سفارتی عملے پر فائرنگ کی گئی۔ پاکستانی ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی تاہم اس حملے میں محفوظ رہے۔ ایک گارڈ کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

Kabul Botschaftsgebäude von Pakistan
تصویر: AFP/W. Kohsar

کابل میں آج جمعہ دو دسمبر کو پاکستان کے سفارتی عملے پر فائرنگ کی گئی۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق فائرنگ اُس وقت کی گئی جب ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی چہل قدمی کر رہے تھے۔ وہ خود محفوظ رہے مگر ان کے ایک گارڈ کو گولی لگی اور وہ زخمی ہو گیا۔

دریں اثناء وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا۔ شہباز شریف نے ایک ٹویٹ میں تحریر کیا، '' میں اس گھناؤنے فعل کے مرتکب افراد کے خلاف فوری تحقیقات اور کارروائی کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘‘

 گرچہ پاکستان نے اب تک افغانستان کی طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، لیکن اس نے کابل میں اپنا سفارت خانہ کھلا رکھا۔ یہاں تک کہ جب  گزشتہ سال اگست میں سخت گیر موقف والے طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا، پاکستان نے وہاں اپنا ایک مکمل سفارتی مشن برقرار رکھا۔

تعلیمی ادارے کے حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا، طالبان

  سفارت خانے کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اکیلا حملہ آور سفارتی دفتر کے احاطہ کے پیچھے سے آیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ انہوں نے کہا، ''سفیر اور دیگر تمام عملہ محفوظ ہیں لیکن ہم احتیاط کے طور پر سفارت خانے کی عمارت سے باہر نہیں جا رہے ہیں۔‘‘ دریں اثناء افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ 'اس ناکام حملے‘ کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کی ابتدائی خبروں کے مطابق سفارتی مشن پر گولیاں ایک قریبی عمارت سے چلائی گئیں۔

وزیر اعظم پاکستان کی اس حملے کی سخت مذمتتصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

کابل میں ایک اور حملہ

جمعہ کوکابل میں گلبدین حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی کے دفتر کے قریب بھی حملہ ہوا لیکن تمام سینیئر رہنما محفوظ رہے۔  حزب اسلامی جماعت نے ایک بیان میں کہا کہ متعدد حملہ آور مارے گئے اور کئی محافظ زخمی ہوئے ہیں۔

یہ بیان حزب اسلامی کے تین ذرائع اور حکمران طالبان کے ذرائع  کی طرف سے دیا گیا ہے۔ تاہم اس پر تبصرے  کی درخواستوں کے باوجود کابل پولیس اور وزارت داخلہ نے فوری طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ یہ امر فوری طور پر واضح نہیں کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔

یہ واقعہ اسی دن پیش آیا جب پاکستانی وزیر اعظم نے پاکستانی سفارتی عملے خاص طور سے پاکستانی ناظم الامور پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کی۔ طالبان حکام نے اس حملے پر کوئی فوری تبصرہ نہیں کیا۔

حکمت یار پر اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم، واپسی کی راہ ہموار

حزب اسلامی پارٹی دفتر پر حملہ ایک مسجد کے قریب ہوا  جہاں پارٹی کے سینئر رہنما بشمول حکمت یار وہاں موجود تھے۔ پارٹی اور حکمت یار کے نواسے عبید اللہ بہیر کے مطابق، تمام رہنمامحفوظ  رہے۔ بیان میں کہا گیا، '' تمام محترم رہنما اور معزز حکام مکمل طور پر محفوظ اور سلامت رہے۔ تاہم لیڈر سپورٹ یونٹ کے کے دو سینیئر گارڈز کو معمولی زخم آئے ہیں۔‘‘

جماعت حزب اسلامی اور طالبان دونوں کے ایک ایک ‌ذریعے نے بتایا کہ حملہ آوروں کی بارود سے بھری ایک گاڑی میں دھماکہ پارٹی کے دفتر کے قریب ہوا۔ دریں اثناء حملہ آوروں نے قریبی مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں فائرنگ ہوئی اور فائرنگ میں دو حملہ آور مارے گئے۔

2017 ء میں افغانستان واپسی پر گلبدین حکمت یار کی خوشیتصویر: Reuters/Parwiz

ہلاک ہونے والے حملہ آور کون؟

کابل سے موصول ہونے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دو خود کُش برقعہ پوش حملہ آور اُس وقت مارے گئے جب انہوں نے جمعے کو افغان سیاسی جماعت حزب اسلامی پارٹی کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ گلبدین حکمت یار نے اپنی حزب اسلامی پارٹی کے زیر انتظام ایک مقامی چینل بریا ٹی وی پر کہا، ''اس واقعے میں ہمارے پاس ایک شخص ہلاک  اور دو زخمی ہوئے ہیں۔ دونوں کرائے کے خودکش حملہ آور اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی مارے گئے۔‘‘

گلبدین حکمت یار کوافغانستانمیں زندہ بچ جانے والی ایک سیاسی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس نے سابق سوویت یونین کے قبضے، طالبان کے پہلے دور اقتدار، اور گزشتہ سال اگست تک حکومت کرنے والی مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف جدوجہد جاری ر کھی۔ 

''کابل کا قصاب‘‘

1992ء تا 1996 ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران، حکمت یار کو ''کابل کا قصاب‘‘ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ انہوں نے  دارالحکومت پر وحشیانہ بمباری کا حکم  دیا تھا اس لیے انہیں اس لقب سے نوازا گیا تھا۔ تب دسیوں ہزار شہری مارے گئے تھے۔

گلبدین ایک سنی پشتون لیڈر ہیں جنہوں نے ابتدا میں ہی  طالبان کی طرف رجوع کرنے سے پہلے  پاکستان کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے کئی سالوں میں افغانستان میں تقریباً ہر سیاسی گروہ کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور پھر انہیں توڑا بھی۔

دوہزار ایک میں امریکی قیادت میں حملے اور طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے کے بعد، واشنگٹن نے ان پر القاعدہ کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگاتے ہوئے انہیں دہشت گرد قرار دیا تھا۔ ایک امن معاہدے کے تحت، تقریباً 20 سال کی جلاوطنی کے بعد انہیں مئی 2017 ء میں ملک واپس آنے کی اجازت  ملی تھی اور دو سال بعد انہوں نےصدارتیعہدے کے لیے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔

گزشتہ سال اگست میں امریکی انخلا اور طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد زیادہ تر افغان سیاست دانوں کے برعکس، وہ اس ملک میں ہی رہے۔ 

ک م / ش ح ( اے ایف پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں