بھارت نے کابل میں ایک گردوارہ پر ہوئے حملےکو 'بزدلانہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ بھارت نے افغان حکومت سے اقلیتی سکھ فرقے کے لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپیل بھی کی۔
اشتہار
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شوربازار علاقے میں سکھوں کی عبادت گاہ پر بدھ 25 مارچ کو ہوئے حملے میں کم از کم پچیس افراد ہلاک اور گیارہ دیگر کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے جب کہ ایک حملہ آور بھی مارا گیا ہے۔
بھارت نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ”اقلیتی فرقے کے مذہبی مقامات پر اس طرح کا بزدلانہ حملہ، وہ بھی کووڈ انیس کی وبا کے وقت میں، حملہ آوروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی شیطانی ذہنیت کا مظہر ہے۔"
بھارت نے حملہ آوروں کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے افغان سکیورٹی فورسز کی تعریف کی اور کہا کہ بھارت افغانستان میں امن و سلامتی کے قیام کی کوششوں میں افغان عوام، حکومت اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں حملے میں ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کے ساتھ تعزیت کا اظہار اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت افغانستان میں ہندو او رسکھ فرقہ کے متاثرہ افراد کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔
بھارت کے وفاقی وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹ کی،”کابل میں گردوارہ صاحب پر ہوئے خودکش حملے کی سخت ترین مذمت کی جانی چاہیے۔ یہ ہلاکتیں ہمیں اس افسوس ناک صورت حال کی یاددہانی کراتی ہیں کہ بعض ملکوں میں مذہبی اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان مذہبی اقلیتوں کی زندگیوں اور مذہبی آزادی کی حفاظت پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔"
حکمراں این ڈی اے اتحاد کی حلیف اکالی دل بادل کے رہنما سکھ بیر سنگھ بادل نے حملے میں سکھوں کی ہلاکت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا،”میری دعائیں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو کابل میں گردوارہ صاحب میں عبادت کے دوران بربریت کا شکار ہوئے۔ میں وزیر اعظم نریندر مودی جی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سکھوں کی حفاظت کے سلسلے میں افغانستان کے صدر اشرف غنی سے فوراً بات کریں۔" کانگریس کے سینیئر رہنما اور رکن پارلیمان منیش تیواری نے بھی اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس بھی ان دہشت گردوں کو روک نہیں پایا۔
اطلاعات کے مطابق کابل کے پرانے شہر کے قلب میں واقع اس گردوارہ پر آج صبح اس وقت دہشت گردوں نے حملہ کردیا جب وہاں سکھ عبادت کر رہے تھے۔ حملے کے وقت گردوارہ میں تقریباً ڈیڑھ سو افراد موجود تھے۔ افغانستان میں سکھ فرقے کے ایک رکن پارلیمان نریندر سنگھ خالصہ کا کہنا تھا کہ جس وقت حملہ ہوا وہ گردوارہ کے قریب ہی تھے اور یہ دیکھنے کے لیے اندر دوڑ پڑے کہ وہاں کیا ہوا ہے۔ بندوق بردار وہاں فائرنگ کررہے تھے۔
'سائٹ‘ انٹلیجنس گروپ کے مطابق اسلامک اسٹیٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ طالبان اس حملے میں شامل نہیں ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں ان دنوں سیاسی عمل تعطل کا شکار ہے۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے صدارتی انتخابات میں اپنی اپنی کامیابی کا دعوی کرتے ہوئے پچھلے دنوں عہدہ صدارت کا الگ الگ حلف لیا تھا۔ امریکا اس تعطل کو ختم کرانے کی کوشش کررہا ہے ۔تاکہ طالبان کے ساتھ حال ہی میں ہوئے امن معاہدے کو نافذ کیا جاسکے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ روز کابل کا دورہ کیا تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں بھی افغانستان میں سکھوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ جولائی سن 2018 میں جلا ل آباد میں سکھوں اور ہندوؤں کو نشانہ بنا کر اس وقت ایک خودکش حملہ کیا گیا جب وہ افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے لیے جارہے تھے۔ اس حملے میں انیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اسلامک اسٹیٹ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ سن 1990 کی دہائی میں طالبان کے دور حکومت میں بھی سکھوں کو مذہبی تعصب کا شکار ہونا پڑا تھا۔ ان سے شناخت کے لیے اپنے بازوں پر پیلی پٹیاں باندھنے کے لیے کہا گیا تھا گوکہ یہ حکم سختی سے کبھی نافذ نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ بھارت میں مودی حکومت نے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کو منظور کراتے وقت ایک دلیل یہ بھی دی تھی کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتوں کو تعصب کا شکار ہونا پڑ رہا ہے اس لیے بھارت مذکورہ ملکوں کے ہندو، سکھ، جین، بودھ اورپارسی فرقہ کے لوگوں کو بھارتی شہریت دے گا۔ اس قانون میں تاہم مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
جاوید اختر، نئی دہلی
جرمن فوٹوگرافر ’جنگ کی ہولناکیوں‘ کی تلاش میں
آنڈی اسپیرا ایک جرمن فوٹوگرافر ہے، جو دنیا کے تقریباً تمام بحران زدہ ممالک اور خطّوں بشمول عراق، افغانستان، شام اور نائیجیریا جا چکا ہے اور ہمیشہ ایسی تصویریں لے کر آتا ہے، جو دیکھنے والے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
تصویر: J. Idrizi
جنگوں کا فوٹوگرافر
1984ء میں جرمن شہر ہاگن میں پیدا ہونے والے آنڈی اسپیرا نے ابتدائی تعلیم کے بعد وسطی امریکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے سفر کیے۔ اسی دوران اُنہیں فوٹوگرافی کا شوق ہوا۔ وہ بار بار بحران زدہ خطّوں میں جاتے ہیں۔ وہ صرف اور صرف بلیک اینڈ وائٹ فوٹوگرافی کرتے ہیں اور طویل المدتی منصوبوں پر کام کرتے ہیں۔ بے شمار مشہور اخبارات اور جریدوں میں اُن کی تصاویر شائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: J. Idrizi
طویل المدتی منصوبہ ’کشمیر‘
پاکستان اور بھارت کا سرحدی خطّہ کشمیر دنیا بھر میں سب سے زیادہ فوجی موجودگی والا خطّہ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں 1989ء سے جاری تنازعہ اب تک تقریباً ستّر ہزار انسانوں کو نگل چکا ہے۔ اپنے طویل المدتی منصوبے ’کشمیر‘ کے لیے آنڈی اسپیرا کو 2010ء میں ’لائیکا آسکر بارناک ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔ اس تصویر کے بارے میں اسپیرا بتاتا ہے کہ ان دو چھوٹے بچوں نے جنگ کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔
تصویر: A. Spyra
بحرانی خطّوں کا روزمرہ کا معمول
مئی 2014ء میں آنڈی اسپیرا نے مزارِ شریف کی نیلی مسجد میں جمعے کی نماز کی یہ تصویر اُتاری۔ پندرہویں صدی میں بننے والی اس مسجد کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہاں پیغمبر اسلام کے داماد دفن ہیں، اسی لیے افغانستان بھر سے زائرین یہاں آتے ہیں۔ اسپیرا کے مطابق وہ بلیک اینڈ وائٹ میں اس لیے تصویریں بناتے ہیں کیونکہ اس طرح ’تصویر کا جذباتی پہلو زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے‘۔
تصویر: Andy Spyra
محاذ کے قریب اسکول کی کلاس
جنگ کے دوران بھی لوگ اپنے روزمرہ معمولات انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جون 2014ء میں اسپیرا نے یہ تصویر مزارِ شریف کے ایک اسکول میں اُتاری۔ یہاں خاص طور پر نمایاں بات اس تصویر میں موجود افراد کے چہروں کے غیر واضح خطوط اور سامنے سے آنے والی تیز روشنی ہے:’’زیادہ تر غیر واضح تصاویر کے ذریعے مَیں جذباتی پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہوں۔‘‘
تصویر: Andy Spyra
بازار کی رنگا رنگی
طالبان کی طرف سے کسی حملے کے خوف کے باوجود افغان شہری اپنی اَشیائے ضرورت خریدنے کے لیے بازار بھی جاتے ہیں۔ وہیں آنڈی اسپیرا نے مئی 2015ء میں یہ تصویر بنائی۔ وہ اپنی تصاویر میں براہِ راست جنگ کے مناظر دکھانے کی بجائے قریبی علاقوں میں چلتی پھرتی زندگی کو موضوع بناتے ہیں۔
تصویر: Andy Spyra
شام اور عراق کی سرحد پر
کُرد ملیشیا، النصرہ فرنٹ اور شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں کے باعث لوگوں کو شام کے کُرد علاقے چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ آنڈی اسپیرا نے یہ تصویر عراقی شامی سرحد پر فِش خابور کے مقام پر بنائی، جہاں گھر بدر ہونے والے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں نے پناہ لی ہے۔
تصویر: A. Spyra
مہاجر کیمپ
جو شخص بھی شام سے زندہ سلامت باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، وہ سرحد پار کسی مہاجر کیمپ میں پناہ کی امید کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق روزانہ کم یا شدید جھڑپوں کے پیشِ نظر کبھی سینکڑوں تو کبھی ہزاروں انسان پناہ کی تلاش میں اِس غیر سرکاری سرحدی گزر گاہ پر پہنچتے ہیں۔ پھر ان کا اندراج ہوتا ہے اور انہیں مختلف کیمپوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ کیمپ بھی جنگ ہی کا ایک چہرہ ہیں۔
تصویر: Andy Spyra
ایک تصویر محاذِ جنگ سے بھی
عام طور پر آنڈی اسپیرا جھڑپوں سے دور ہی رہتے ہیں اور زیادہ تر تصاویر لڑائی کے مرکز سے ہٹ کر واقع علاقوں میں اتارتے ہیں تاہم اس تصویر میں وہ شمالی شام میں راس العین کے مقام پر ہونے والی لڑائی کے بیچوں بیچ ہیں۔ یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کے خلاف برسرِپیکار ہے: کُرد عربوں کے خلاف، ترک کُردوں کے خلاف، اسلام پسند مسیحیوں کے خلاف اور سب مل کر حکومت کے خلاف۔
تصویر: A. Spyra
عراق کی مسیحی اقلیت
جون 2011ء میں آنڈی اسپیرا نے عراق میں الحمدانیہ کے مقام پر ایک رسمِ تدفین میں شرکت کی۔ اس علاقے کی اٹھانوے فیصد آبادی مسیحی ہے اور شامی کیتھولک چرچ اور شامی آرتھوڈوکس چرچ سے تعلق رکھتی ہے۔ اگست 2014ء سے لے کر اکتوبر 2016ء تک یہ شہر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے میں تھا۔ اس باعث یہاں کے متعدد عیسائی باشندوں کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑی۔
تصویر: A. Spyra
نائیجیریا اور بوکو حرام
آنڈی اسپیرا کئی بار نائیجیریا بھی جا چکے ہیں۔ وہاں اُنہوں نے تقریباً 80 ایسی خواتین اور لڑکیوں کی تصاویر اُتاری ہیں، جو بوکوحرام کے قبضے میں رہیں۔ یہ باقاعدہ ان خواتین کو ایک جگہ بٹھا کر اُتاری گئی تصاویر ہیں، جیسی کہ اسپیرا عام طور پر نہیں اُتارتے۔ وہ انہیں مظلوم بنا کر پیش نہیں کرتے:’’ایک فوٹوگرافر ہونے کے باوجود میری بھی حدود ہیں۔ وہاں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے، جو مَیں کیمرے میں قید نہیں کر سکتا۔‘‘