کابل میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم پندرہ افراد زخمی
3 اپریل 2022
افغان دارالحکومت میں اتوار کو ہونے والے دھماکے میں کم از کم پندرہ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ اس دھماکے کی وجہ کیا تھی۔ تاحال کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اشتہار
ایسوسی ایٹڈ پریس ٹی وی نے جائے وقوعہ سے راہ گیروں کو زخمیوں کو ہٹاتے ہوئے دکھایا۔ دریں اثناء ایک منی چینجر احمد نے بتایا کہ افغان دارالحکومت کابل میں یہ دھماکہ سب سے بڑی ایکسچینج مارکیٹ میں ہوا۔ اس واقعے کے بعد ملنے والی ابتدائی رپورٹوں کے مطابق ملکی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب ایک چور نے رقم چرانے کے لیے سرائے شاہزادہ ایکسچینج مارکیٹ پر ایک دستی بم پھینکا۔ وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ پولیس اس واقعے کی چھان بین کر رہی ہے۔
دریں اثناء مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سامنے آنے والی والی تصاویر میں اس مارکیٹ کے فرش پر خون دکھائی دیا اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیے جاتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔
موسم کی تبدیلی
افعانستان میں جوں جوں موسم تبدیل ہو رہا ہے، ویسے ویسے عشروں سے جنگ زدہ اس ملک میں اب طالبان کا کنٹرول بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ افغانستان کو 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا آئی ایس نامی دہشت گرد گروپ کے علاوہ کئی طرح کے دہشت گرد عناصر سے خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہندو کش کی اس ریاست میں خونریز واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آئی ایس دہشت گرد گروپ کے خطرے کے علاوہ کئی مسلح گروہ بھی فعال ہیں، جو بنیادی طور پر طالبان مخالف شخصیات کے تعاون سے بنائے گئے اور سابق حکومتی سکیورٹی فورسز کے اقتدار پر دوبارہ قبضے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہفتے کی رات گئے 'اسلامک اسٹیٹ‘ نے گزشتہ دو روز کے دوران کابل اور ہرات میں ہونے والے بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
ہفتے کے روز کابل کے ایک علاقے میں دھماکہ ہوا تھا، جس کے بارے میں رپورٹوں میں کہا گیا تھا کہ اس کا ہدف طالبان کی ایک گاڑی تھی۔ اس سے قبل جمعے کے دن بھی صوبے ہرات کے ایک شیعہ اکثریتی علاقے میں بچوں کے لیے کھیل کے ایک میدان میں بھی دھماکہ ہوا تھا۔
افغانستان کے شہر ہرات اور جنوبی صوبے ہلمند میں یکم اپریل جمعے کے روز ہونے والے دو مختلف واقعات میں متعدد بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ طالبان حکام کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ہرات میں کھیل کے میدان میں پھٹنے والے بم حال ہی میں نصب کیے گئے تھے۔ تاہم ہلمند میں ہونے والے دھماکے کو حادثہ کہا جا رہا ہے۔
مغربی شہر ہرات میں بچوں اور نوجوانوں کا ایک گروپ ایک میدان میں کھیلنے کے لیے آیا تھا اور اس وقت بم دھماکوں کی زد میں آ گیا جب یکے بعد دیگرے وہاں دو بم دھماکے ہوئے۔ طالبان کے مقرر کردہ صوبائی حکام کے مطابق اس دھماکے میں پانچ افراد ہلاک اور کم از کم 20 دیگر زخمی ہوئے۔ جس میدان میں یہ دھماکہ ہوا وہ زیادہ تر روایتی کھیلوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ہرات میں طالبان کے قائم کردہ انٹیلیجنس دفتر کے ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ حال ہی میں کھیل کے اس میدان میں موجود گولہ بارود وہاں سے صاف کر دیا گيا تھا، جس کے بعد اس میدان کو محفوظ قرار دے دیا گيا تھا۔ ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ جو بم پھٹے، وہ وہاں کھیلنے کے لیے جانے والے بچوں اور نوجوانوں کے گروپ کے پہنچنے سے کچھ دیر پہلے ہی نصب کیے گئے تھے۔ مقامی پولیس نے جمعے کے روز ہونے والے ان ہلاکت خیز دھماکوں کے بعد علاقے سے ملنے والے دو بموں کو ناکارہ بھی بنا دیا تھا۔
اشتہار
طالبان کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون؟
طالبان کو سب سے زیادہ خطرہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ گروپ سے قریبی تعلق رکھنے والے 'اسلامک اسٹیٹ خراسان‘ یا IS-K نامی گروپ سے ہے۔ طالبان نے مشرقی افغانستان میں اس گروپ سے وابستہ مقامی تنظیم کے ایک بڑے گڑھ کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ ادھر آئی ایس کے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہفتے کو رات گئے اس کے جنگجوؤں نے کابل میں طالبان کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا اور گاڑی میں موجود تمام افراد کو ہلاک کر دیا۔ طالبان نے تاہم اس واقعے کی تصدیق نہیں کی۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔