1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل کا بُش بازار: رونقیں ماند، دوکاندار پریشان

عابد حسین2 اپریل 2014

افغانستان کے دارالحکومت کابل کی تنگ گلیوں میں قائم بُش بازار کے دوکاندار امریکی انخلا پر خاصے خفا ہیں اور اِس کی ایک بڑی وجہ امریکی فوجیوں کی جانب سے فالتو سامان پھینکنے کے بجائے اُسے جلانے کا عمل ہے۔

تصویر: DW/H.Sirat

چند ماہ قبل تک کابل شہر میں سابق امریکی صدر جورج ڈبلیُو بُش کے نام پر قائم ہونے والا بازار گاہکوں کی بھیڑ سے سجا ہوتا تھا اور اب حالیہ ایام میں یہ بھیڑ کم ہو گئی ہے کیونکہ کئی قِسم کے امریکی سامان میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ کچھ ہفتے پہلے تک اِس بازار سے انواع و اقسام کی امریکی اشیاء خریدنے مختلف علاقوں سے افغان باشندے پہنچتے تھے۔ اب اِس کی رونق ماند پڑنے کی ایک بڑی وجہ رواں برس کے اختتام پر امریکی افواج کے انخلا کی تیاریوں کے دوران فالتو سامان کو گوداموں میں ذخیرہ کرنے کے بجائے اِس کو جلانے کا عمل خیال کیا گیا ہے۔

غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں معاشرتی و سماجی مسائل سہ گنا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہےتصویر: DW/Hossain Sirat

کاُبل شہر کے بُش بازار میں سینکڑوں دکاندار چھوٹے بڑے اسٹالز لگائے ہوئے ہیں۔ اس بازار میں امریکی اور دوسری نیٹو افواج کے بیس کیمپوں میں رکھے گئے فالتو سامان کی سپلائی چوری چکاری سے ہوتی رہی ہے۔ اب اِن چھوٹی بڑی چوریوں میں مسلسل کمی واقع ہوتی جا رہی ہے اور اُس کی وجہ سامان کو گوداموں میں ذخیرہ کرنے کے بجائے جلانے کا سلسلہ ہے۔ چند سال پہلے اس بازار میں کاروباری سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں اور اب یہ نصف سے بھی قدرے کم خیال کی جا رہی ہیں۔

بُش بازار کا ایک بڑا دکاندار حاجی نجی اللہ اس عمل پر بہت پریشان اور خفا ہے۔ بازار کی رونق کم ہونے کے حوالے سے حاجی نجی اللہ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے امریکیوں کو انتہائی خراب لوگ قرار دیا اور تاسف سے کہا کہ کے وہ اپنے فوجی کیمپوں پر رکھا سامان پھینکنے یا افغانیوں کو دینے کے بجائے جلانے میں مصروف ہیں۔ نجی اللہ کے مطابق اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کو افغانیوں کی ضرورت نہیں ہے اور امریکی فوج کے انخلا پر بُش بازار کے سبھی دکاندار پریشان ہیں۔ فوجوں کے انخلا کے حوالے سے حاجی نجی اللہ کو سوویت یونین کے فوجی پسند آئے تھے جو جاتے ہوئے سارا سامان چھوڑ گئے تھے۔

لوگوں کو تشویش ہے کہ فوجیوں کے انخلا کے بعد معاشی بدحالی بہت زیادہ بڑھ جائے گیتصویر: WEDA/AFP/Getty Images

ایک دو سال قبل تک بُش بازار میں ممنوعہ خنزیر کے ڈِبوں سمیت شراب کی بوتلیں بھی دستیاب تھیں۔ بظاہر یہ دونوں اشیاء افغانستان کے مسلم معاشرے میں مذہباً ممنوع ہیں۔ اسی بازار میں ریڈی میڈ انڈوں کے آملیٹ، دلیے کے ڈبے اور مختلف قسم کی امریکی چٹنیاں وافر مقدار میں دستیاب تھیں۔ پہلے تو امریکی اور افغان فوجیوں کی وردیاں بھی دستیاب تھیں، انہی کو پہن کر طالبان نے کئی بڑے حملے بھی کیے تھے۔ اب اس بازار میں کپڑے، بوٹ، سستا چینی سامان اور نیٹو افواج کے لیے بھیجے گئے ریڈی میڈ کھانوں کے ڈبے دوکانوں پر سجے ہوئے ہیں۔

مجموعی طور پر بُش بازار میں پائی جانے والی بےچینی اِس بازار کے باہر افغان معاشرے میں بھی ہے۔ امریکا نے افغانستان کی کمزور اقتصادیات کو سہارا دینے کے لیے اربوں ڈالر دیے ہیں اور عام لوگوں کو تشویش ہے کہ فوجیوں کے انخلا کے بعد معاشی بدحالی بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور سارے ملک میں معاشرتی و سماجی مسائل سہ گنا ہو جائیں گے۔ رواں مہینے میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر بھی بش بازار کے دوکاندار اور عام لوگ بہت زیادہ تکیہ کیے ہوئے ہیں اور اُن کے مطابق الیکشن کے بعد شاید استحکام کی صورت حال پیدا ہو جائے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں