کابل کی ایک مسجد پر خود کش حملہ، درجنوں نمازی ہلاک
عابد حسین
20 اکتوبر 2017
افغان دارالحکومت کابل کی ایک شیعہ مسجد پر آج جمعہ بیس اکتوبر کو حملہ کیا گیا۔ حملے کے وقت شیعہ مسلمان شام کی نماز کے ادائیگی کے لیے جمع تھے۔
اشتہار
افغان دارالحکومت کےایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نے بتایا ہے کہ کم از کم تیس نعشیں مسجد سے باہر لائی جا چکی ہیں۔ افغان وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے بھی ان ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ حملہ کابل پولیس کے تیرہویں ڈسٹکرکٹ دشتی برچ (Dashti Barch) میں واقع امام زمانہ مسجد پر کیا گیا۔
کابل کے سکیورٹی ادارے سے منسلک ایک سینیئر اہلکار میجر جنرل علی مست مومند نے حملہ آور کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پیدل چلتے ہوئے امام زمانہ مسجد میں داخل ہوا تھا۔ اس خود کش حملہ آور نے نمازیوں کے درمیان پہنچ کر اپنی بارودی جیکٹ کو اڑا دیا۔ کابل شہر کی پولیس کی کرائم برانچ کے سربراہ جنرل محمد سلیم الماس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حملے میں بارودی جیکٹ اڑانے سے قبل دہشت گرد نے مسجد کے اندر موجود افراد پر فائرنگ بھی کی۔
پینتالیس دیگر نمازیوں کے زخمی ہونے کا بھی بتایا گیا ہے۔ ان زخمیوں میں کئی کی حالت تشویشناک ہے۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ زخمیوں کو شہر کے استقلال ہسپتال کے علاوہ دوسرے طبی مراکز میں پہنچایا جا رہا ہے۔ کابل کے محکمہٴ صحت نے دس ہلاکتوں کی فی الحال تصدیق کی ہے۔
ہلاک شدگان اور زخمیوں کی حتمی تعداد کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ اس مناسبت سے متضاد رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔ ابھی تک کسی گروپ یا تنظیم نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
کابل پھر لرز اٹھا
افغان دارالحکومت کابل میں ہوئے تازہ کار بم حملے کے نتیجے میں چار سو سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے بتایا ہے کہ یہ دھماکا مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
یہ حملہ زنباق اسکوائر کے نزدیک ہوا، جہاں قریب ہی حکومتی دفاتر کے علاوہ افغان صدر کا دفتر بھی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
اس ٹرک بم حملے کے نتیجے میں کم از کم اسّی افراد ہلاک جبکہ ساڑھے تین سو زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
دھماکے کے بعد جائے حادثہ سے اٹھنے والے دھوئیں کے بادلوں نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
تصویر: Reuters/H. Sayedi
افغان طالبان نے کابل میں ہونے والے تازہ بم حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے ایک ’بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح حکومت کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے تصدیق کر دی ہے کہ کابل میں ہوئے اس حملے کی وجہ سے وہاں واقع جرمن سفارتخانہ بھی متاثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں عمارت کے باہر موجود افغان سکیورٹی گارڈ مارا گیا جبکہ عملے کے دیگر مقامی ارکان بھی زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
دھماکے کی شدت کو دیکھتے ہوئے ملکی وزارت صحت نے خدشہ ظاہر ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
اس دھماکے کی وجہ سے تیس گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں جبکہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
طبی ذرائع کے مطابق اس بم حملے میں سینکڑوں افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کئی کی حالت نازک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
فرانسیسی وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس دھماکے کے باعث کابل میں فرانس کے سفارتخانے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
پاکستان کی طرف سے بھی اس خونریز کارروائی پر کابل حکومت کے ساتھ اظہار افسوس کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sobhani
12 تصاویر1 | 12
کابل شہر ہی میں تقریباً تین ہفتے قبل انتیس ستمبر کو ایک اور شیعہ مسجد میں عاشورہ کی ایک مجلس کے دوران ایک خود کش حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں حملہ آور گڈریے کی روپ میں تھا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے اس حملے کو کسی حد تک ناکام بنا دیا تھا تاہم پھر بھی چھ افراد مارے گئے تھے۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔