کابل کے انٹیلیجنس ٹریننگ سینٹر کے حملہ آور ہلاک، آپریشن ختم
16 اگست 2018
افغان دارالحکومت کابل میں آج عسکریت پسندوں نے ایک اور حملہ کیا لیکن اُس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس حملے میں شامل چاروں حملہ آوروں کو افغان فوج کے خصوصی دستوں نے ہلاک کر دیا۔
اشتہار
افغان وزارت داخلہ نے کابل میں ملکی خفیہ ادارے کے ایک ٹریننگ سینٹر پر جمعرات کو حملہ کرنے والے تمام حملہ آوروں ہلاک کرنے کی تصدیق کی ہے۔ سکیورٹی حکام کے مطابق انیٹلی جنس تربیتی سینٹر پر حملہ کرنے والے چاروں شدت پسندوں کو چھ گھنٹے کی لڑائی کے دوران مارا گیا۔
اس دوران فریقین وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ دو حملہ آوروں کے ہلاک کرنے کی پہلے اطلاع عام کر دی گئی تھی۔ اب تک کسی عسکری گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی کے مطابق اس حملے میں کوئی سکیورٹی اہلکار یا عام شہری نا تو ہلاک ہوا اور نہ ہی زخمی ہوا ہے۔
حملہ آوروں نے قریبی سڑک پر سے گزرنے والے عام لوگوں اور گاڑیوں پر بھی فائرنگ کی تھی۔ اس باعث ٹریننگ سینٹر کے علاقے کو حصار میں لے لیا گیا تھا۔
خصوصی فوجی دستوں نے اُس زیر تعمیر عمارت کو بھی کلیئر کر دیا ہے، جس میں حملہ کرنے والے مورچہ زن ہو گئے تھے۔ ان شدت پسندوں کے حملے کی کوشش کے نتیجے میں جنگجوؤں اور سکیورٹی فورسز کے مابین لڑائی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
افغانستان میں گزشتہ دنوں کے دوران جنگجوؤں کے متعدد حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان میں مشرقی شہر غزنی پر طالبان کا حملہ اور بغلان میں واقع چیک پوسٹوں اور فوجی کیمپوں پر کیے گئے حملے بھی شامل ہیں۔ اسی دوران ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے بدھ کے روز شیعہ اکثریتی آبادی والے کابل کے مغربی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر خود کش حملہ بھی کیا تھا۔
افغان شہری۔ ایک مختلف زاویہ
جرمن فوٹوگرافر ژینز اُمباخ نے شمالی افغانستان کا سفر کیا تاکہ اُن لوگوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے، جو جرمن ملٹری مشن کی وجہ سے متاثر ہوئے۔
مزارِ شریف میں کئی چہرے
یہ بزرگ شخص اُن 100 سے زائد افغان شہریوں میں سے ایک ہیں جن کی تصاویر کو جرمن فوٹوگرافر ژینز اُمباخ نے افغانستان کے شمالی حصے کے شہر مزارِشریف کے دورے کے دوران اپنے کیمرے میں محفوظ کیا۔
حقیقی چہرہ
اُمباخ ان لوگوں کے چہرے دکھانا چاہتے تھے جو شہ سرخیوں میں نہیں رہے۔ امباخ کے مطابق، ’’جرمن فوج افغانستان میں لوگوں کے تحفظ کے لیے گئی تھی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اس تصویر میں دکھائی گئی لڑکی نے اپنی تمام زندگی اپنے علاقے میں غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی میں گزاری ہے۔‘‘
دل کش منظر
اُمباخ نے پہلی مرتبہ افغانستان کا سفر 2010ء میں کیا تھا، اس وقت کے بعد سے وہ اس ملک کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں اور میرا اسسٹنٹ مزار کے قریب صحرا میں کھڑے تھے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ اس منظر سے اس قدر مرعوب ہوا ہے کہ اُس کا دل رونے کو چاہ رہا ہے۔ میڈیا اس ملک کی صرف بُری تصویر ہی دکھاتا ہے۔‘‘
مہمانداری
افغان لوگوں نے اُمباخ کا استقبال گرمجوشی اور محبت سے کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں اکثر کھانوں اور موسیقی کی محفلوں یا پھر قومی کھیل بزکشی کے میچ دیکھنے کی دعوت دی جاتی۔‘‘ تاہم سکیورٹی وجوہات پر انہیں زیادہ تر ایسی دعوتوں سے معذرت کرنا پڑتی۔
سکیورٹی
شہر میں لوگوں کی تصاویر لینا آسان نہیں تھا۔ جب تصاویر اتارنے کا مرحلہ ہوتا تو سکیورٹی ہمیشہ سخت ہوتی۔ اُمباخ کے مقامی پروڈیوسر نے انہیں واضح ہدایات دے رکھی تھیں کہ وہ کس طرح کی تصاویر بنا سکتے ہیں اور کس طرح کی نہیں۔
سیاستدان اور عسکریت پسند
اُمباخ نے عطاء محمد نور جیسے اثر و رسوخ رکھنے والے سیاستدانوں کی تصاویر بھی اتاریں۔ افغان صوبہ بلخ کے گورنر جرمنوں کے ایک اہم پارٹنر تھے۔ اُمباخ نے بعض عسکریت پسندوں کی تصاویر بھی بنائیں۔
جرمنی میں نمائش
جرمنی میں اُمباخ کی تصاویر کی نمائش رواں ماہ کے آغاز میں شروع ہوئی ہے۔ اس نمائش کا عنوان ہے ’’دی افغانز‘‘۔ اُن کی تصاویر کولون میں ہونے والی فوٹوگرافی کی دنیا کی بڑی ترین نمائشوں میں سے ایک ’’فوٹوکینا‘‘ میں پیش کی گئیں، جس کے لیے تعاون جرمنی کے ایک معروف کیمرہ کمپنی نے کیا۔
فوٹو بُک
ژینز اُمباخ ایک فوٹو بُک شائع کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ کراؤڈ فنڈنگ کے پلیٹ فارم ’’کِک اسٹارٹر‘‘ کے ذریعے وہ اپنے اس پراجیکٹ کے لیے فنڈز جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُمباخ کہتے ہیں، ’’فوٹو بُک ایک ایسی دستاویز ہے جو قائم رہتی ہے۔‘‘ ان کو امید ہے کہ ’دی افغانز‘ نامی فوٹوبُک مستقبل کی نسلوں کو اُس وقت کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی جب جرمنوں کو افغانستان میں تعینات کیا گیا تھا۔