کابل کے طالبان سے خفيہ مذاکرات: واشنگٹن پوسٹ
6 اکتوبر 2010واشنگٹن پوسٹ نے يہ خبر افغان اور عرب ذرائع کے حوالے سے شائع کی ہے۔ اخبار نے کسی ذریعے کا نام ظاہر کئے بغير لکھا ہے کہ ان ذرائع کے بقول وہ يہ سمجھتے ہيں کہ طالبان کے نمائندوں کو کوئٹہ شوریٰ، پاکستان ميں قائم افغان طالبان تنظيم اور افغان طالبان کے قائد ملا عمر کی طرف سے بات چيت کے اختيارات حاصل ہيں۔
واشنگٹن پوسٹ نے جن ذرائع کے حوالے سے يہ خبر دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ حاليہ مذاکرات ابھی اپنے ابتدائی مرحلے ميں ہيں۔ اخبار کے مطابق ايک سال سے بھی زيادہ عرصہ پہلے سعودی عرب ميں افغان حکومت اور طالبان کے درميان جو مذاکرات ہوئے تھے وہ بے نتيجہ رہے تھے۔
تاہم کابل ميں صدر حامد کرزئی کے ترجمان وحيد عمر نے واشنگٹن پوسٹ کی خبر کے حوالے سے طالبان کے ساتھ نئے مذاکرات کی تصديق يا تردید کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی ميں طالبان سے رابطے ہوئے تھے اور ممکن ہے کہ اب بھی بالواسطہ يا براہ راست طور پر يہ رابطے موجود ہوں ليکن يہ صرف روابط ہيں اور کسی قسم کی اہم مذاکرات نہيں ہوئے ہيں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ پچھلے دو برسوں سے طالبان کے ساتھ باقاعدہ روابط ہيں۔ افغانستان ميں گذشتہ کئی عشروں سے جنگ جاری ہے۔ امريکی فوج نے سن 2001 ميں طالبان کی حکومت کو ختم کرنے کے لئے حملہ کيا تھا، جو 11 ستمبر کو امريکہ ميں دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار القاعدہ نيٹ ورک کی پشت پناہی کر رہی تھی۔يہ جنگ قریب نو سال سے جاری ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق افغان حکومت اور طالبان کے درميان بات چيت سے قريبی تعلق رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان اس بات چيت کے سلسلے ميں بہت سنجيدہ ہيں۔
افغان، عرب اور يورپی ذرائع کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ حال ہی ميں امريکہ کے رويے ميں تبديلی آئی ہے اور اوباما انتظاميہ افغان حکومت اور طالبان کے درميان مذاکرات کی مخالفت کے بجائے اس بارے ميں کھلے ذہن کا مظاہرہ کررہی ہے۔
افغانستان ميں نيٹو اور آئی سيف افواج کے کمانڈر جنرل ڈيوڈ پيٹرياس نے افغان حکومت اور طالبان کے درميان روابط کا اعتراف کيا ہے ليکن کہا ہے کہ يہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ طالبان صدر کرزئی کی شرائط پر کسی سمجھوتے کے لئےتیار ہو جائیں گے۔
رپورٹ: شہاب احمد صديقی
ادارت: عصمت جبيں