کابل کے لگژری ہوٹل پر حملے کی ذمه داری طالبان نے قبول کرلی
شادی خان سیف، کابل
21 جنوری 2018
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بیسویں صدی کے شاہکار ’انٹر کانٹینینٹل‘ ہوٹل پر خونریز حملے کی ذمه داری طالبان نے قبول کرلی ہے۔ اس حملے میں کم از کم اٹھارہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے، جن میں سے چودہ غیر ملکی ہیں۔
اشتہار
ہفتے کی شب قریب دس بجے شروع ہونے والا یه دہشت گردانه حمله اتوار کی دوپہر تک جاری رہا، جس دوران کلاشنکوف اور دستی بموں سے مسلح حمله آور اس ہوٹل میں قیام پذیر ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کو نشانه بنانے کی تاک میں رہے۔ رات بهر افغان پولیس کے کمانڈوز منزل به منزل حمله آوروں سے نبرد آزما رہے ، اور بالآخر اتوار کی دوپہر کو تمام چھ حمله آوروں کی ہلاکت کا اعلان کیا گیا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح الله مجاہد نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے که ان کے ’مجاہدوں‘ نے اس کارروائی میں کئی غیر ملکیوں کو ہلاک کیا ہے۔
افغانستان کی دو مساجد پر حملے، داعش نے ذمہ داری قبول کر لی
01:16
حکومتی ذرائع مجموعی طور پر اٹھارہ ہلاکتوں کی تصدیق کر رہے ہیں، تاہم جس وقت طالبان اس ہوٹل پر حمله آور ہوئے اس وقت افغانستان بهر کے 34 صوبوں سے وزارت مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہدیدار بهی اسی ہوٹل میں ایک سیمینار کے لیے موجود تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک صوبائی عہدیدار، پاکستان کے شہر کراچی میں متعين افغان قونصل جنرل اور چودہ غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر غیر ملکی یوکرائن کے شہری بتائے گئے ہیں۔
ملک کی سب سے بڑی نجی فضائی کمپنی ’کام ایئر‘ کا کہنا ہے که ان کے دس کارکن اس حملے میں اپنی جانیں کهو بیٹھے ہیں۔ ایک اعلامیے میں کام ایئر نے اعلان کیا که عملے کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے باعث کئی پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔ انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں مقیم غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد اسی فضائی کمپنی کے کارکن تھے۔
اس حملے کے فوری بعد سے لے کر کئی گھنٹے بعد تک ہوٹل میں موجود مقامی اور غیر ملکی مہمان اتنے خوفزدہ تھے کہ ان میں سے کئی افراد نے بدحواسی میں اس ہوٹل کے چوتھی اور پانچویں منزل کی کھڑکیوں کے راستے اپنی جانیں بچانے کے لیے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش بھی کی۔
وزارت داخله کے ترجمان نجیب دانش نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا که حمله آور پہلی منزل پر واقع باورچی خانے کے راستے ہوٹل میں داخل ہوئے اور زیاده جانی نقصان بهی پہلی منزل پر ہی ہوا، جہاں دہشت گردوں نے بے دریغ فائرنگ کی اور بم پهنکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا که معاملے کی چهان بین شروع کر دی گئی ہے که آخر سکیورٹی کے کڑے حصار کے باوجود دہشت گرد کیسے اندر پہنچ کر خون خرابه کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے یه بهی بتایا که چند ہفتے قبل انٹر کانٹینینٹل کی سکیورٹی ایک نجی کمپنی کو سونپی گئی تهی اور تحقیقات میں اس نکتے پر بهی غور کیا جائے گا۔
ایک غیر حکومتی اور غیر فوجی مقام پر ہوئے اس خونریز حملے کی مختلف حلقوں کی جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ افغان صدر محمد اشرف غنی نے ایک بیان میں کہا ہے که تمام اقسام کی دہشت گردی کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اشاروں میں پاکستان کی جانب اشاره کرتے ہوئے کہا که اقوام متحده کی سلامتی کونسل کے نمائندوں سے ہوئی حالیه ملاقاتوں میں یه واضح کیا گیا ہے که جب تک دہشت گردوں کے لیے پناه گاہیں موجود اور ان کی معاونت جاری رہے گی، تب تک اس خطے کے لوگوں کے لیے امن، سکون اور استحکام ممکن نہیں ہو گا۔
واضح رہے که ان ملاقاتون کے دوران دیگر افغان حکام نے واضح الفاظ میں طالبان اور بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے لیے پاکستان کے مبینه تعاون کا مدعا اٹهایا تها۔ اسلام آباد البته ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ آج پاکستانی دفتر خارجه سے جاری ہوئے ایک بیان میں کابل کے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل پر ہوئے اس حملے کی مذمت کی گئی ہے اور افغان عوام اور حکومت کے ساته ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔