1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کاربن ڈائی آکسائیڈ سے سمندری پانی تیزابی

7 جولائی 2009

فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار، سمندری پانیوں میں تیزابیت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ ایک طرف تو زمینی حدت کا باعث بن رہی ہے دوسری جانب سمندروں میں تیزابیت میں اضافہ کو موجبتصویر: AP

کاربن ڈائی آکسائیڈ، جس کا ایک مالیکیول ایک کاربن اور دو آکسیجن ایٹموں سے مل کر بنتا ہے پانی میں حل پزیر ہے۔ یہ گیس پانی کے مالیکیولز اور موجود نمکیات کے ساتھ مل کر کاربونک ایسڈ بناتی ہے۔ جس سے سمندری حیات شدید خطرے سے دوچار ہے۔

صنعتی انقلاب کے بعد فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں بے پناہ اضافہ ہواتصویر: picture-alliance / dpa

مستقبل کی دنیا کا تصور آتے ہیں اگر ایک ایسی زمین کا خاکہ سامنے آئے جس میں زندگی خال خال ہو یا صرف کسی صحرا کا منظر دکھائی دے تو سمجھ لیجیئے فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار اتنی بڑھ گئی کہ زمین زندگی سے محروم ہو گئی۔

گزشتہ کچھ عشروں میں صنعتی ممالک میں ہائیڈروکاربن فیول کے زبردست استعمال نے زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے۔ ایک جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سمندری پانی میں شامل ہوتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ نہ صرف سمندری پانی کو تیزابی بنا رہی ہے بلکہ اس نے سمندری حیات کے مستقبل پر بھی کئی سوالیہ نشان بنا چھوڑے ہے۔

اس وقت بھی دنیا کا سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرنے والا ملک امریکہ ہے

سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں برطانوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں صنعتی انقلاب کے بعد سمندروں میں تیزاب کی مقدار میں نمایاں اضافہ ہوا اور اس کا شکار کوئی ایک خطہ نہیں بلکہ کرہ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کی وجہ سے دنیا بھر کے تمام سمندر اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ برطانوی یونیورسٹی پلے ماؤتھ سے وابستہ تحقیقی ٹیم کے لیڈر جیسن ہال سپنسر (Jason Hall-Spencer) کے مطابق سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی تحلیل اس حد تک ہو چکی ہے کہ فوری طور پر کمی کے باوجود سمندروں میں موجود اس تیزابیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔

کئی علاقوں میں سمندری حیات میں تیس فیصدر سے زائد کمی واقع ہوئی ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

’’ یہ بات واضح ہے کہ دنیا بھر میں سمندری حیات میں کمی دیکھی گئی ہے اور اس میں مزید کمی آئے گی۔ یہ ناقابل تلافی اثرات ہیں کیونکہ تیزابیت خود ناقابل تلافی ہے۔ ہم نے اسے شروع ضرور کیا ہے مگر ہم اسے ختم نہیں کر سکتے‘‘

اس کی ایک واضح مثال گھونگے کی ہے جس کی زندگی کا انحصار اس کے بیرونی جانب پائے جانے والے شیل پر ہوتا ہے۔ گھونگے اپنے بیرونی شیل بنانے میں ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ سمندری پانی سے کیلشیم کاربونیٹ یعنیCaCO3 جذب کرتے ہیں اور معدنیات کے ساتھ مل کر ان کا بیرونی شیل بن جاتا ہے۔ یہی شیل سیپیوں کے بیرونی جلد کی صورت میں بھی نظر آتا ہے۔ مگر سمندر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ملنے سے سمندری پانی میں کاربونک ایسڈ کی مقدار میں اضافے کی صورت میں کیلشیم کاربونیٹ کی مقدار گھٹتی چلی جاتی ہے۔ سو کاربونک ایسڈ کی انتہائی مقدار کی موجودگی، اور کیلشیم کاربونیٹ کی مقداد میں کمی کے باعث گھونگے بیرونی شیل تعمیر نہیں کر سکتے، سو ان کی بقا نا ممکن ہے۔

سمندری حیات کو جس قدر خطرہ اب لاحق ہے شاید زمین کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھاتصویر: AP

پی ایچ تیزابیت ماپنے کا ایک اہم پیمانہ ہے۔ پی ایچ سے مراد پانی میں ہائڈروجن آئینوں کی مقدار کی شرح ہے۔

اس اسکیل میں سات کا مطلب نیوٹرل ہے جس سے اوپر مائع کو اساس اور اس سے کم ہونے کی صورت میں تیزاب گردانہ جاتا ہے۔ صاف یا پینے کے پانی کی پی ایچ تقریبا سات ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ہال سپینسر کی زیرقیادت اس تحقیقی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ صنعتی انقلاب سے لے کر اب تک سمندری پانی جو قدرے اساسی ہوتا ہے اور جس کی پی ایچ پہلے آٹھ اعشاریہ ایک ہوتی تھی اب کرہ ارض پر اس کی پی ایچ میں صفر اعشاریہ ایک فیصد کمی آ چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ پانی تیزابیت میں اضافے کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ سمندری حیات کو لاحق خطرات کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ جہاں پانی کی پی ایچ سات اعشاریہ آٹھ یا نو ہو وہاں سمندری حیات میں تیس فیصد کمی آ جاتی ہے اور بعض سمندروں میں سائنسدانوں نے یہ پی ایچ سات اعشاریہ چار بھی ریکارڈ کی ہے۔

خبررساں ادارے

ادارت : عاطف توقیر

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں