کاربن ڈائی اوکسائیڈ کی سطح انسانی تاریخ میں بلند ترین
14 مئی 2019
زمین کی فضا میں مضر گیس کاربن ڈائی اوکسائیڈ کی سطح انسانی تاریخ میں بلند ترین لیول پر پہنچ گئی ہے۔ ماحولیاتی سائنسدانوں کے مطابق زمینی فضا کو آلودہ کرنے میں انسانوں کا اہم کردار ہے۔
اشتہار
امریکا کے اسکرپس انسٹیٹیوٹ برائے سمندر شناسی (اوشنوگرافی) کے مطابق زمین کی بالائی سطح میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے ذرات کی مقدار 415 فی ملین پائے گئے ہیں۔ ادارے کے مطابق سبز مکانی گیس کی یہ سطح انسانی تاریخ میں بلند ترین ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عموماً اس گیس کی بلند سطح کرہٴ ارض میں موسم خزاں، سرما اور بہار میں ہوتی ہے۔
اسکپس انسٹیٹیوٹ برائے اوشنوگرافی کے ڈائریکٹر رالف کیلنگ کا کہنا ہے کہ کرہ ارضی کے بالائی ماحول میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے شامل ہونے کا موجودہ رجحان رواں برس یعنی سن 2019 میں برقرار رہنے کے قوی اشارے موجود ہیں۔ کیلنگ کے مطابق اس رجحان کی وجہ سے زمین کو موسمیاتی ایل نیٹو ایفکٹ کا سامنا ہو گا اور اس باعث کئی علاقوں کو انتہائی زیادہ درجہ حرارت، غیر معمولی بارشوں اور خشکی کا سامنا ہو گا۔
رالف کیلنگ نے یہ بھی واضح کیا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس زمینی فضا میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے شامل ہونے کی شرح تین پارٹس پر ملین رہے گی۔ اسکرپس انسٹیٹیوٹ برائے سمندر شناسی کے مطابق اگر اس سبز مکانی گیس کے فضائی ماحول میں شامل ہونے کی شرح بڑھتی رہی تو اگلی صدی کے اوائل میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کی شرح ایک ہزار پارٹس پر ملین تک پہنچ جائے گی۔
انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب سے قبل زمینی فضا میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کی موجودگی کی شرح تیس سو پارٹس پر ملین (PPM) تھی۔ سن 2013 میں اس ماحول دشمن گیس نے چار سو پارٹس پر ملین کی حد کو عبور کیا تھا۔ سن 2015 کی پیرس کلائمیٹ ڈیل کے باوجود بھی سبز مکانی گیسیں زمین کے بالائی ماحول میں شامل ہو رہی ہیں حالانکہ کئی اقوام نے ان کو کنٹرول کرنے کے وعدے بھی کیے تھے۔
سائنسی ریسرچ نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ تین ملین سال سے زائد عرصہ قبل بھی زمین کی بالائی فضا میں کاربن ڈائی اوکسائیڈ کی سطح میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا تھا۔ اُس وقت موجودہ درجہ حرارت کے مقابلے میں زمین کا ٹمپریچر تین سے چار ڈگری زیادہ پایا گیا تھا۔ اُس دور میں سمندروں کی سطح کئی میٹر بلند ہو گئی تھی اور قطب شمالی و جنوبی میں جنگلات کی بھرمار تھی۔
ان قدرتی مناظر کو دیکھنے میں بھی کہیں دیر نہ ہو جائے
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑے سنگی مرجانی چٹانوں کے نظام سے لے کر دیو قامت گلیشیئرز جیسے مقامات کے خاتمے سے پہلے پہلے انہیں دیکھنے کے لیے سیاحوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سیاح ان مقامات کو مزید خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/McPhoto/SBA
عارضی خزانہ
سالانہ بیس لاکھ افراد گریٹ بیریئر ریف (سنگی مرجانی چٹانوں کا نظام) کو دیکھنے آسٹریلیا آتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق تقریبا ستر فیصد سیاح یونیسکو کے اس عالمی ورثے کو اس وجہ سے دیکھنے آ رہے ہیں کیوں کہ یہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اگر زمینی درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک محدود بھی کر لیا جائے تو نوے فیصد کورل ختم ہو جائیں گی۔ کورل کو چھونے یا گندگی سے سیاح اس عمل کو تیز بنا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Probst
انسان کی لائی ہوئی تباہی
اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار برفانی ریچھوں کو دیکھنے کے لیے آنے والے کتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث بنے؟ سن دو ہزار دس کے ایک سروے کے مطابق چرچل اور کینیڈا میں برفانی ریچھ کی سفاری سالانہ 20 میگا ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث ہے۔ زیادہ تر سیاح جہازوں سے سفر کرتے ہیں۔ اٹھاسی فیصد موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث انسان ہے۔
تصویر: picture-alliance/McPhoto/SBA
براعظم انٹارکٹیکا دیکھنے کا شوق
برفانی ریچھوں کے ساتھ ساتھ گلیشئرز پگھلنے کی تصاویر کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی نمائندہ تصاویر سمجھا جاتا ہے۔ سیاح کروز شپ کے ذریعے سمندر میں تیرتے ہوئے ایسے عظیم الجثہ برفانے تودے کو دیکھنے کے لیے اچھی خاصی رقم ادا کرتے ہیں۔ سن 1990ء میں براعظم انٹارکٹیکا کی سیاحت کرنے والے افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی۔ سن 2018ء میں یہ تعداد 46 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔
تصویر: S. Weniger/M. Marek
سیزن کے عروج میں
تیزی سے ختم ہوتی ہوئی قدرتی برف کو دیکھنے کے لیے لازمی نہیں آپ قطب شمالی یا قطب جنوبی جائیں۔ براعظم افریقہ میں کلیمنجارو کی برفانی پہاڑیوں کی سیاحت سے سالانہ چوالیس سے پچاس ملین ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی میں وہاں کی 85 فیصد برف ختم ہو گئی ہے۔ باقی ماندہ برف بھی رواں صدی کے وسط تک ختم ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Schnoz
بے تاج بادشاہ
جب سن 1910ء میں امریکا کے گلئیشیر نیشنل پارک کا افتتاح ہوا تھا تو اس کی ایک سو سے زائد چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا۔ اب ایسی دو درجن سے بھی کم چوٹیاں باقی بچی ہیں۔ یہ پارک اب موسمیاتی تبدیلیوں کے تحقیقی مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سالانہ تیس لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں۔
تصویر: Imago Images/Aurora/J. Miller
ایک جنت کا نقصان
مالدیپ سیاحوں کی جنت ہے۔ اس کے بارہ ہزار کورل جزیرے ہیں، جہاں اڑھائی میٹر بلند شفاف پانی کے نیچے سے سفید ریت نظر آتی ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں اس ملک کے صدر نے ایک نیا ایئرپورٹ اور سیاحتی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ موجودہ سے سات گنا زیادہ سیاحوں کی گنجائش پیدا کی جا سکے۔ نئے جزیرے بنانے کے لیے مقامی کمیونیٹیز کو بھی دوسری جگہ آباد کیا جانا ہے۔ ابھی یہ منصوبہ پایا تکمیل نہیں پہنچا۔
تصویر: Colourbox
نمکیں دلدل
رفتہ رفتہ صرف جزیرے ہی زیر آب نہیں آ رہے بلکہ فلوریڈ کا دلدلی ایورگلیڈز نیشنل پارک بھی آہستہ آہستہ غائب ہو رہا ہے۔ گزشتہ صدی کے دوران ایورگلیڈز کا تقریبا نصف حصہ خشک ہو چکا ہے اور اب زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔