سابق امریکی صدر پر یومیہ دس ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے اور جب تک وہ اپنے کاروباری طور طریقوں کی تحقیقات کے لیے مطلوبہ دستاویزات جمع کر کے عدالتی حکم کی تعمیل نہیں کرتے اس وقت تک ان پر جرمانہ عائد رہے گا۔
اشتہار
نیویارک کی ایک عدالت نے 25 اپریل پیر کے روز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان دستاویزات کے حوالے کرنے میں ناکام رہنے پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا، جو ان کے کاروباری طور طریقوں کی تحقیقات کے سلسلے میں عدالت نے ان سے جمع کرنے کو کہا تھا، تاہم انہوں نے ابھی تک فراہم نہیں کیا ہے۔
اس سے قبل اپنے اہم فیصلے میں جج آرتھر اینگورون نے ٹرمپ کو حکم دیا تھا کہ وہ 31 مارچ تک دستاویزات فراہم کرنے والی درخواست کی تعمیل کریں۔ اب جج نے ٹرمپ کو حکم دیا ہے کہ جس مقررہ تاریخ سے انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے اس کے بعد سے وہ یومیہ دس ہزار ڈالر کا جرمانہ ادا کریں۔
پیر کو اپنا فیصلہ سنانے سے قبل جج نے کہا، ''مسٹر ٹرمپ، میں جانتا ہوں کہ آپ اپنے کاروبار کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، اور میں بھی اپنے کام کو سنجیدگی سے لیتا ہوں۔''
ٹرمپ سے تفتیش کی وجہ کیا ہے؟
نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹشیا جیمز نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے کاروباری معاملات کی تحقیقات میں ان کے دفتر کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ اٹارنی جنرل کا دفتر اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ آیا ٹرمپ کے ادارے نے قرضوں کے لین دین اور ٹیکس میں رعایات حاصل کرنے کے لیے اپنے اثاثوں کی قدر میں غلط بیانی سے تو کام نہیں لیا ہے۔
عدالتی فائلز کے مطابق، اٹارنی جنرل کے دفتر کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ صدر ٹرمپ گزشتہ ایک عشرے کے بھی زائد عرصے سے اپنے مالیاتی گوشواروں کے حوالے سے دھوکہ دہی کے طور طریقوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ محترمہ جیمز کے خلاف عدالت میں کیس لڑ رہے ہیں۔ وہ ان تحقیقات کو اپنے خلاف سیاسی چال بتاتے ہیں اور چونکہ محترمہ جیمز ڈیموکریٹ ہیں، اس لیے وہ اس کارروائی کو اپنے خلاف ایک سیاسی سازش قرار دیتے ہیں۔
ٹرمپ کی وکیلوں میں سے ایک، ایلینا حبہ، اس بات پر اصرار کرتی رہی ہیں کہ وہ عدالتی حکم کی تعمیل کے لیے اب تک کافی کوششیں کر چکی ہیں اور حتیٰ کہ ٹرمپ کے پاس موجود کسی بھی طرح کی دستاویزات کے حصول کے لیے وہ فلوریڈا تک کا سفر کر چکی ہیں۔
ایلینا حبہ نے اس فیصلے کے رد عمل میں کہا، ''توہین عدالت کا ارتکاب، نامناسب اور گمراہ کن ہے۔ انہوں نے تمام دستاویزات مرتب کی ہیں...صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کرنے کے لیے مزید دستاویزات باقی نہیں ہیں۔''
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔