کافکا کی لاپتہ دستاویزات کا آخری حصہ اسرائیل میں منظر عام پر
مقبول ملک کرسٹینا بُوراک
7 اگست 2019
جرمن زبان کے معروف ادیب فرانز کافکا کی لاپتہ دستاویزات کا آخری حصہ بھی منظر عام پر آ گیا ہے۔ کافکا کے قریبی دوست اور معتمد خاص ماکس براڈ کی وساطت سے ملنے والی یہ دستاویزات اب اسرائیل کی نیشنل لائبریری کا حصہ ہیں۔
اشتہار
فرانز کافکا نے اپنی بہت سے تحریریں اور مسودے اپنی موت سے کچھ ہی عرصہ قبل اس درخواست کے ساتھ ماکس براڈ کے لیے چھوڑے تھے کہ وہ انہیں چھپوائے بغیر جلا کر تلف کر دیں۔ لیکن براڈ نے ایسا نہیں کیا تھا اور یوں انہوں نے کافکا کو ایک تاریخ ساز ادیب بنانے اور دنیا کو اس مصنف کی بہت سی غیر مطبوعہ تحریروں سے متعارف کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
کافکا کی جو دستاویزات اور ادبی تحریریں اب اسرائیل میں منظر عام پر آئی ہیں، وہ پہلے تو اسرائیل ہی میں ایک ریفریجریٹر میں چھپائی گئی تھیں، پھر انہیں چوری کر لیا گیا تھا، پھر جرمنی میں ان کا پتہ ایک ایسے ویئر ہاؤس سے چلایا گیا تھا جہاں فنون لطیفہ کے فن پاروں کی نقلیں تیار کی جاتی تھیں اور آخر میں یہ مسودات ایک ایسی قانونی تفتیش کی وجہ بھی بنے تھے، جو بالآخر ایک کثیرالفریقی مقدمے کی صورت میں عدالت میں پہنچ گئی تھی۔
اب یہ دستاویزات، جو فرانز کافکا کے انتہائی قریبی دوست اور معتمد خاص ماکس براڈ کی ملکیت ذاتی دستاویزات کا آخری حصہ تھیں، یروشلم میں اسرائیل کے قومی کتب خانے کو مل گئی ہیں۔
یوں اس اسرائیلی لائبریری کا کافکا اور ماکس براڈ سے متعلق تاریخی دستاویزات کا ذخیرہ بھی برسوں کی قانونی جنگ کے بعد مکمل ہو گیا ہے۔
ایک ہی کہانی کے تین ابتدائی مسودے
یہ ادبی مسودے اور دیگر کاغذات برسوں تک سوئٹزرلینڈ میں ایک بینک کے لاکر میں بھی رکھے رہے تھے۔ ان میں کافکا کی ایک مشہور کہانی 'دیہی علاقے میں شادی کی تیاریاں‘ کے تین مختلف ابتدائی مسودے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان ادبی باقیات میں کافکا کی ایک ڈائری بھی شامل ہے، جس میں کچھ نہ کچھ لکھ کر وہ عبرانی زبان کی مشق کیا کرتے تھے۔
علاوہ ازیں ان دستاویزات میں فرانز کافکا کے ماکس براڈ اور کئی دیگر دوستوں کو لکھے گئے بیسیوں ذاتی خطوط بھی شامل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان بیش قیمت دستاویزات میں کافکا کے بنائے ہوئے بہت سے خاکے، ڈرائنگز، سفری یادداشتیں اور ایسے خیالات بھی شامل ہیں، جو وہ وقتاﹰ فوقتاﹰ کہیں نہ کہیں لکھ لیتے تھے۔
کافکا اور ماکس براڈ سے متعلق ان دستاویزات کی اسرائیل کی نیشنل لائبریری کی طرف سے بدھ سات اگست کو یروشلم میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کچھ دیر کے لیے نمائش بھی کی گئی، جس دوران وہاں موجود صحافی کافکا کی بہت سے ڈرائنگز اور خطوط ذاتی طور پر دیکھ سکتے تھے۔
اس موقع پر اسرائیل کی قومی لائبریری کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ ڈیوڈ بلومبرگ نے کہا، ''ان دستاویزات کو دیکھتے ہوئے، جن میں کافکا کی عبرانی ڈائری بھی شامل ہے اور یہودیت اور صیہونیت کے بارے میں لکھے گئے ان کے خطوط بھی، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسرائیلی نیشنل لائبریری ہی وہ واحد مناسب جگہ ہے جہاں ان دستاویزات کو ہونا چاہیے۔‘‘
ماسک براڈ کی املاک
فرانز کافکا کے دوست اور قریبی معتمد ماکس براڈ 1884ء میں پراگ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1939ء میں وہ نازی دور اقتدار میں جرمنی سے فرار ہو کر تل ابیب چلے گئے تھے۔ ان کا انتقال تل ابیب ہی میں 1968ء میں ہوا تھا اور انہوں نے اپنی ساری املاک اور ذاتی دستاویزات اپنی سیکرٹری ایستھر ہوفے کے نام چھوڑی تھیں، جن میں کافکا کے کئی مسودے بھی شامل تھے۔
2007ء میں ایستھر ہوفے کے انتقال کے بعد یہ دستاویزات ان کی بیٹی کو منتقل ہو گئی تھیں، جنہوں نے مبینہ طور پر ان کے ایک بڑے حصے کو طویل عرصے تک ایک خراب ریفریجریٹر میں بھی رکھ چھوڑا تھا۔
بعد میں کسی طرح یہ دستاویزات تین مختلف حصوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد، جزوی طور پر ناقابل فہم حالات میں، تین مختلف جگہوں پر رکھی گئی تھیں۔ ان میں سے ایک ایستھر ہوفے کی بیٹی کی رہائش گاہ تھی، دوسرا ایک اسرائیلی بینک کا لاکر اور تیسرا سوئٹزرلینڈکے شہر زیورخ میں ایک بینک کا لاکر۔
یروشلم میں اسرائیلی نیشنل لائبریری کے پاس موجود کافکا کی لاپتہ دستاویزات کا یہ آخری حصہ اب اپنے طور پر اس طرح مکمل ہے کہ اس میں ان مسودات کے وہ تینوں حصے شامل ہیں، جو ماضی میں ان کی حفاظت کے لیے اسرائیل اور سوئٹزرلینڈ میں تین مختلف مقامات پر رکھے گئے تھے۔
گنٹر گراس کی زندگی کے مختلف اَدوار
جرمنی کے اہم ترین ادیبوں میں شمار ہونے والے نوبل انعام یافتہ گنٹر گراس پیر تیرہ اپریل کو ستاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ سولہ اکتوبر 1927ء کو جنم لینے والے گراس کا انتقال شمالی جرمن شہر لیوییک کے ایک ہسپتال میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گنٹر گراس کا سوگ
گنٹر گراس دوسری عالمی جنگ کے بعد کے اہم ترین جرمن ادیبوں میں سے ایک تھے۔ سیاسی طور پر سرگرم دانشور کے طور پر وہ کئی نزاعی مباحث کے آغاز کا باعث بنے۔ اُنہوں نے جو بحثیں چھیڑیں، اُن کا تعلق نیشنل سوشلزم، جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور دورِ حاضر کی سیاست سے ہوا کرتا تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images/P. Armestre
ادیب کے طور پر شہرت کا آغاز
1959ء میں اُن کے ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ 1979ء میں اس پر فلم بھی بنی۔ 1961ء میں ’کیٹ اینڈ ماؤس‘ اور 1963ء میں ’ڈاگز ایئرز‘ کے ساتھ گراس نے اپنی تین حصوں پر مشتمل ’گڈانسک ٹرایالوجی‘ مکمل کر لی، جس میں جرمن قوم کے اجتماعی احساسِ جرم اور ہٹلر دور کا احاطہ کیا گیا تھا۔
تصویر: ullstein - Tele-Winkler
گنٹر گراس کے لیے ادب کا نوبل انعام
چار ہی سال بعد 1999ء میں گنٹر گراس کو نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ نوبل کمیٹی کی جانب سے کہا گیا کہ گنٹر گراس نے اپنی تحریروں میں تاریخ کے فراموش کردہ چہرے کو بیان کیا ہے اور یہ کہ اُن کے ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ کا شمار بیس ویں صدی کی سدا بہار ادبی تخلیقات میں ہوا کرے گا۔
تصویر: AP
مشرقی پرشیا میں لڑکپن کے دن
گراس سولہ اکتوبر 1927ء کو مشرقی پرشیا میں پیدا ہوئے۔ وہ پولینڈ میں واقع مقام گڈانسک میں ایک عام سے گھرانے میں پلے بڑھے۔ اپنے لڑکپن میں وہ ہٹلر کے نوعمروں کے لیے بنائے گئے یونٹ HJ کے رکن رہے۔ اسی یونٹ کے جریدے میں اُن کی ابتدائی کہانیاں شائع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images
نازی جماعت کے دستے میں رکنیت
بہت بعد میں اُنہوں نے بتایا تھا کہ گھر والوں کے دباؤ سے بچ نکلنے کے لیے وہ رضاکارانہ طور پر فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔ 1944ء میں سترہ سال کی عمر میں وہ ’وافن ایس ایس‘ میں شامل ہو گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر وہ امریکیوں کے جنگی قیدی بن گئے۔
تصویر: Sean Gallup/Getty Images
آرٹسٹ کے طور پر تربیت
جنگ کے بعد انہوں نے پتھر سے مجسمے تخلیق کرنے کی تربیت شروع کی اور شہر ڈسلڈورف میں گرافک اور مجسمہ سازی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مصروف ہو گئے۔ اُن کی رہائش برلن اور پیرس میں بھی رہی اور اُن کے مجسموں اور گرافک شاہکاروں کی نمائشیں بھی ہوئیں۔ وہ عمر بھر فن کے شعبے سے منسلک رہے۔ وہ اپنی کتابوں کے سرورق خود بناتے تھے۔
تصویر: AP
’گروپ سینتالیس‘ میں شمولیت
بیس ویں صدی کے پانچویں عشرے میں گراس کی توجہ زیادہ سے زیادہ ادب کی جانب مبذول ہوئی۔ 1955ء میں وہ ادیبوں کی ایک با اثر جرمن تنظیم ’گروپ سینتالیس‘ کی نظروں میں آئے۔ اسی گروپ کی ایک ادبی نشست میں اُنہوں نے اپنے ایک غیر طبع شُدہ ناول ’دی ٹِن ڈرم‘ میں سے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سیاسی سرگرمیاں
گراس سیاست کے شعبے میں بھی سرگرمِ عمل رہے اور جرمنی اور پولینڈ کے درمیان دوستی کے لیے کوشاں رہے۔ ساٹھ کے عشرے میں جرمن سوشل ڈیمرکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی رکنیت حاصل کیے بغیر وہ اس جماعت کی انتخابی مہم میں سرگرم رہے۔ اگرچہ وہ محض 1982ء تا 1992ء اس جماعت کے رکن رہے لیکن اس کی حمایت وہ عمر بھر کرتے رہے۔
تصویر: picture alliance/Dieter Klar
گراس تنقید کی زَد میں
1995ء میں معروف نقاد مارسیل رائش رانیسکی نے گراس کے ناول ’ٹُو فار افیلڈ‘ کو نہ صوف ادبی اعتبار سے بلکہ سچ مُچ اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ اس سیاسی ناول میں 1848ء سے لے کر دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد تک کی تاریخ بیان کی گئی تھی تاہم تاریخ کو مبینہ طور پر غلط رنگ میں پیش کرنے کے الزام میں گراس شدید بحث و تمحیص کی زَد میں رہے۔
جرمن تاریخ پر ایک اور شاہکار
2002ء میں گراس نے ایک اور ادبی سنگِ میل عبور کیا۔ یہ تھا اُن کا نیا ناول ’کرَیب واک‘، جسے بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس میں 1945ء میں ممکنہ طور پر نو ہزار انسانوں کے ساتھ غرق ہو جانے والے بحری جہاز ’ولہیلم گُسٹلوف‘ اور مشرقی یورپ سے جرمنوں کو گھر بدر کرنے کا ذکر کیا گیا تھا۔ نقادوں نے گراس کو اتنے مشکل موضوع پر قلم اٹھانے اور واقعات کی انتہائی مؤثر تصویر کشی کے لیے سراہا۔
تصویر: ullstein bild
اعتبار جاتا رہا؟
2006ء میں اُن کی آپ بیتی ’پیلنگ دی اونین‘ نے جرمنی میں ایک نئی نزاعی بحث چھیڑ دی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے پہلی مرتبہ یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ ہٹلر کے ’وافن ایس ایس‘ یونٹ میں شامل رہے تھے۔ تب ناقدین نے اُن کی اخلاقی دیانت اور اعتبار پر سوالیہ نشان لگا دیے۔
تصویر: picture-alliance/SCHROEWIG
اسرائیل پر تنقید
2007ء میں گراس کی 80 ویں سالگرہ پر اُنہیں ایک بار پھر ایک عظیم ادیب کے طور پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اپریل 2012ء میں اُن کی ایک نظم ’جو کہا جانا چاہیے‘ میں اسرائیل کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا، جیسے ہی یہ نظم شائع ہوئی، ہر طرف سے گراس پر تنقید شروع ہو گئی۔ اس نظم کی ادبی ساخت کو بھی نشانہ بنایا گیا اور گراس کو سیاسی معاملات سے ناواقفیت اور سامی دشمنی کا بھی الزام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آخر وقت تک مزاحمت اور تنقید کرتے رہے
دسمبر 2013ء میں جن 562 شخصیات نے ’رائٹرز اگینسٹ ماس سرویلینس‘ کی اپیل پر دستخط کیے، اُن میں گراس بھی شامل تھے۔ اس اپیل میں امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر جاسوسی کی سرگرمیوں کے خلاف مزاحمت پر ابھارا گیا تھا۔ وہ آخر وقت تک ایک ایسے دانشور رہے، جو اپنے موقف کو نمایاں کرنے کے لیے مزاحمت کرتے اور الجھتے رہے۔ گنٹر گراس پیر تیرہ اپریل کو ستاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔