کافی یا چائے کیوں پسند ہے؟ آپ نہیں جینیاتی عوامل طے کرتے ہیں
16 نومبر 2018
ایک نئی ریسرچ کے مطابق جینیاتی عوامل انسانوں میں کسی بھی ذائقے کی پسندیدگی یا ناپسندیدگی کو طے کرتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب وہ وثوق سے بتا سکتے ہیں کہ کسی فرد کو کافی اور کسی کو چائے سے زیادہ رغبت کیوں ہوتی ہے؟
اشتہار
سائنسی جریدے ’نیچر سائنٹیفک رپورٹس‘ میں شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق وہ افراد، جن کی جینیات میں کھٹے اور تلخ ذائقوں کا ادراک پہلے سے موجود ہوتا ہے وہ کافی میں ’ٹارٹ کیفین‘ کی موجودگی کے سبب اسے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
انسان نے جیسے جیسے ارتقائی مراحل طے کیے اس کے اندر تلخ ذائقوں کو پہچاننے کی صلاحیت بھی بڑھتی چلی گئی۔ یہ ایک طرح سے اس کے جسم میں ضرر رساں مادوں سے بچنے کے لیے ایک الارمنگ سسٹم تھا۔ اگر ہم ’امیریکانو‘ نامی کافی کی بات کریں تو ارتقائی تناظر میں ہمیں اسے چکھتے ساتھ ہی واش بیسن میں تھوک دینا چاہیے۔
لیکن ایک مظاہرے میں ایسے افراد نے، جو کیفین کے زیادہ تلخ ذائقے کے بارے میں حساس تھے، کافی کو چائے پر ترجیح دی اور اسے زیادہ مرتبہ نوش کیا۔
نارتھ ویسٹرن فائن برگ اسکول آف میڈیسن کی پروفیسر میری لین کورنیلیز کے مطابق،’’ آپ کو توقع ہو گی کہ وہ لوگ جو کیفین کے ذائقے کے لیے حساس ہیں، کم کافی پیتے ہوں گے۔ ہماری تحقیق کے نتائج اس کے برعکس ہیں۔‘‘
برطانیہ میں چار لاکھ سے زائد مرد و خواتین پر کی گئی اس تحقیق میں محققین نے یہ بھی پتہ لگایا کہ وہ افراد جو کونین اور سبزیوں کے مرکبات کے تلخ ذائقوں کے لیے حساس تھے، انہوں نے کافی کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی۔
کوئینز لینڈ ڈائمنٹینا انسٹیٹیوٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور اس مطالعے کے شریک مصنف لیانگ دار وانگ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ حقیقت کہ بعض لوگ کافی کو چائے پر ترجیح دیتے ہیں، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جب بات ذائقے کی ہو تو کس طرح روز مرہ تجربات جینیاتی رحجانات کو مسترد کر دیتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا،’’ تلخ ذائقوں کو محسوس کرنا نہ صرف جینیاتی بلکہ ماحولیاتی عوامل پر بھی منحصر ہوتا ہے۔
ص ح / اا / نیوز ایجنسی
چینی کے استعمال کے آٹھ بڑے نقصانات
چینی ایک ذائقہ دار شے ہوتے ہوئے بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ دنیا بھر میں اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے طبی مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ چینی کے استعمال کے آٹھ بڑے نقصانات۔
تصویر: Colourbox
موٹاپے کی بڑی وجہ
چینی جسم کے اندر داخل ہوتے ہی دو سے پانچ گنا تیزی سے پہلے سے موجود چربی کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ چینی کے ذریعے ہم چربی والے خلیات کو براہ راست غذا فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ چینی جگر کو بھی متاثر کرتی ہے اور اس کی زیادتی سے کوئی بھی شخص ذیابیطس ٹائپ ٹو کا مریض بھی بن سکتا ہے۔
تصویر: Colourbox
میٹھا بھی ایک نشہ
فربہ افراد کے دماغ پر بھی چینی بالکل الکوحل یا دیگر نشہ آور اشیاء کی طرح اثر انداز ہوتی ہے اور اس سے ڈوپامِین زیادہ مقدار میں خارج ہونے لگتا ہے۔ اگر آپ دس دن تک ایسے مشروبات اور کھانوں سے پرہیز کرنے کی کوشش کریں، جن میں چینی کی وافر مقدار شامل ہوتی ہے تو دو دن بعد ہی آپ کا سر درد کرنا شروع کر دے یا آپ چڑچڑے ہو جائیں یا پھر آپ کا دل میٹھا کھانے کو چاہے تو سمجھ لیجیے کہ آپ کو چینی کی لت پڑ چکی ہے۔
تصویر: Colourbox
چینی صحت مند نظام ہضم کے لیے تباہ کن
انسانی نظام ہضم میں پائے جانے والے صحت مند بیکٹیریا نہ صرف خوراک ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ وہ معدے اور آنتوں کو ان پر حملہ کرنے والے جرثوموں سے بھی بچاتے ہیں۔ نظام ہضم میں جتنی زیادہ شکر موجود ہو گی، اتنا ہی زیادہ مختلف بیماریوں کا سبب بننے والے بیکٹیریا کو افزائش کا موقع ملے گا۔ جسم میں طفیلی جرثوموں کو میٹھا بہت راس آتا ہے۔ ریح، قبض اور اسہال کی ایک بڑی وجہ یہی بہت زیادہ چینی بنتی ہے۔
تصویر: Colourbox
مدافعتی نظام بھی کمزور
چینی کا بہت زیادہ استعمال جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کر دیتا ہے۔ چینی کھاتے ہی مدافعتی نظام کی کارکردگی چالیس فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چینی وٹامن سی کی دشمن ہے اور خون کے سفید خلیوں کو بیکٹیریا اور وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے اسی وٹامن سی کی ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چینی سرطان کا ممکنہ باعث بھی
سرطان کے خلیات کو پروان چڑھنے کے لیے بہت زیادہ چینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بائیو کیمسٹری کے ماہرین کا خیال ہے کہ چینی کی بہت زیادہ مقدار سرطان کا باعث بن سکتی ہے۔ اس بارے میں ہارورڈ یونیورسٹی کی بھی ایک طبی تحقیق موجود ہے۔
تصویر: Colourbox
میٹھے کی وجہ سے بڑھاپے کی تیز رفتار آمد
بہت زیادہ میٹھا کھانے سے زیادہ تر انسانوں میں بڑھاپے کی تیز رفتار آمد کا سبب وہ عمل بنتا ہے، جسے گلائیکیشن کہتے ہیں۔ اس سے مراد جلد کے خلیات میں بہت زیادہ میٹھے کا جمع ہونا ہے۔ اس طرح جلد کے نیچے شکر کے سالموں کے جمع ہونے سے جلد سخت ہو جاتی ہے اور اس طرح جلد کے خلیات میں سے نقصان دہ مادے بھی خارج نہیں ہو پاتے اور جلد تیزی سے بوڑھا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
تصویر: Colourbox
جارحانہ رویے کی وجہ
چینی کے شوقین افراد میں جارحانہ رویہ یا جلد غصہ آ جانے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ چینی توجہ کی کمی کی وجہ سے بچوں میں پیدا ہونے والے مرض Attention deficit hyperactivity disorder کا سبب بھی بنتی ہے۔ چینی کی بہت زیادہ مقدار کی بناء پر بچے کسی بھی کام پر مکمل توجہ نہیں دے پاتے اور پریشان اور بے چپن بھی رہتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
یادداشت کی کمزوری
متعدد جائزوں کے مطابق چینی کا زیادہ استعمال یادداشت کی کمزوری کا سبب بھی بنتا ہے۔ خون میں شکر کی زیادہ مقدارکا ذہنی امراض سے بھی براہ راست تعلق ہے۔