ماضی میں مبینہ طور پر دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی نئی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ ملک میں اتوار کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں ایک امیدوار کی حمایت کر رہی ہے۔
اشتہار
ہفتہ سولہ ستمبر کو نیوز ایجنسیوں سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق عسکری تجزیہ کار اور پاکستانی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹینینٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ یہ عسکریت پسند گروپوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کے لیے ملکی فوج کے مجوزہ منصوبے کی طرف ایک کلیدی اقدام ہے۔
ملی مسلم لیگ مبینہ طور پر کالعدم جہادی تنظیم جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کی وفادار جماعت ہے۔ حافظ سعید کو امریکا اور بھارت سن 2008 میں ممبئی میں ہوئے دہشتگردانہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہیں۔ ان حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تاہم پاکستان کے سابق وزیراعظم کے نااہل ہونے کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار کی کامیابی کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔
سابق سینیر فوجی افسر لیفٹینینٹ جنرل امجد شعیب نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ اس بات کا علم رکھنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے تین قابل اعتماد ساتھیوں نے تصدیق کی ہے کہ شریف نے عسکریت پسندوں کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کے منصوبے کی مخالفت کی تھی۔‘‘
شعیب نے مزید کہا،’’ ہمیں اُن افراد کو جو پر امن ہیں ہتھیار اٹھانے والے عناصر سے الگ کرنا ہے۔‘‘ پاکستانی فوج پر ایک طویل عرصے سے عسکریت پسند گروپوں کو پروان چڑھانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے تاکہ انہیں پڑوسی ملک بھارت کے خلاف پراکسی جنگجوؤں کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ پاکستان آرمی اس الزام کو مسترد کرتی چلی آئی ہے۔
حافظ سعید کی تنظیم کے خیراتی ادارے نے میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل کیے جانے کے دو ہفتوں کے اندر ہی ملی مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کر دیا تھا۔
کالعدم تنظیم جماعت الدعویٰ کے کارکنوں پر مشتمل سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ کو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہ مل سکی تھی لیکن اس کے حمایت یافتہ امیدوار قاری یعقوب شیخ، آزاد امیدوار کے طور پر حافظ محمد سعید اور پاکستانی کے بانی قائد اعظم کی تصاویر کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
امریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے انصار الامہ نامی تنظیم کے سربراہ فضل الرحمان خلیل نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اسلامی قوانین کی حمایت کے لیے جلد ہی اپنی سیاسی جماعت تشکیل دینے کا پلان رکھتے ہیں۔
خلیل نے مزید کہا،’’ خدا نے چاہا تو ہم مرکزی دھارے میں واپس آئیں گے۔ ہمارے ملک کو محب وطن لوگوں کی ضرورت ہے۔‘‘ خلیل نے پاکستان کو اسلامی شرعی قوانین کے تحت چلانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔
حافظ سعید کی جماعت الدعوة اور فضل الرحمان خلیل کی انصارالامہ دونوں ہی جماعتوں کو امریکا اُن عسکریت پسند گروہوں کے طور پر دیکھتا ہے، جنہیں بقول امریکا پاکستانی فوج کی پشت پناہی حاصل ہے۔ دوسری جانب پاکستانی فوج واشگاف انداز میں عسکری انتہا پسند گروپوں کی حوصلہ افزائی کی پالیسی سے انکار کرتی ہے۔
مذکورہ دونوں انتہا پسند اسلامی گروہوں نے اپنے سیاسی عزائم کے پس پردہ پاکستانی فوج کے عمل دخل سے انکار کیا ہے۔ روئٹرز کے مطابق یہ استفسارات پاک آرمی کے میڈیا سیکشن میں بھیجے گئے لیکن ان پر تبصرے کے لیے فوجی ترجمان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
راحیل شریف کا نیا منصب، ’اعزاز بھی، باعث تشویش بھی‘
پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی قیادت میں قائم کثیر القومی انسداد دہشت گردی فوج کی سربراہی کریں گے۔ ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت پاکستان کے علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
’راحیل شریف 39 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کے سربراہ‘
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بتایا ہے کہ راحیل شریف کو، جو گزشتہ برس نومبر تک پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز تھے، 39 مسلم ممالک کے اس فوجی اتحاد کی قیادت سونپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو سعودی عرب کی سربراہی میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے متعدد خونریز تنازعات کے حل میں مدد کی جا سکے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’اعزاز بھی اور باعث تشویش بھی‘
پاکستان آرمی کےسابق سربراہ کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والی بین الاقوامی انسداد دہشت گردی فوج کی کمان کرنا ایک اعزاز تو ہے لیکن کئی تجزیہ کاروں کو تشویش ہے کہ اس طرح پاکستان کی اس کثیر الملکی عسکری اتحاد میں شمولیت اسلام آباد کے کئی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Nietfeld
پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی کوششیں
جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے آرمی چیف کے طور پر دور میں ہی پاکستان کے افغان سرحد کے ساتھ ملحقہ قبائلی علاقوں میں اس ملٹری آپریشن کو بھرپور اور نتیجہ خیز حد تک آگے بڑھایا گیا تھا، جس کا مقصد تب کافی حد تک لاقانونیت کے شکار ان پاکستانی قبائلی علاقوں سے اسلام کے نام پر عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو ہوا دینے والے شدت پسندوں کا خاتمہ کرنا تھا۔
تصویر: ISPR
اندازے درست ثابت ہوئے
نومبر 2015ء میں راحیل شریف ابھی پاکستانی فوج کے سربراہ کے عہدے سے رخصت نہیں ہوئے تھے کہ تب ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں سعودی سربراہی میں عسکری اتحاد کا کمانڈر بنا دیا جائے گا۔
تصویر: ISPR
باضابطہ اعلان جلد ممکن
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق راحیل شریف کو تین درجن سے زائد مسلم ممالک کے اس عسکری اتحاد کا فوجی کمانڈر بنانے کا فیصلہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد اگلے چند روز میں باضابطہ شکل اختیار کر لے گا۔
تصویر: ISPR
ملکی فوجی دستے بیرون ملک نہیں بھیجے جائیں گے
پاکستان شروع میں تو اس سعودی عسکری اتحاد میں شمولیت سے گریزاں تھا لیکن پھر بعد میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اس فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی تصدیق تو کر دی تھی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اسلام آباد حکومت اس اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے کوئی ملکی فوجی دستے بیرون ملک نہیں بھیجے گی۔
تصویر: ISPR
پاکستان پر ممکنہ اثرات کیا ہوں گے؟
ناقدین کے مطابق اس بین الاقوامی عسکری اتحاد کی قیادت راحیل شریف کو سونپنے کے فیصلے کے پاکستان میں نظر آنے والے ممکنہ اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ اتحاد متنازعہ ہے۔ دفاعی تجزیہ نگار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ریاض اور تہران کے مابین واضح اور شدید کھچاؤ پایا جاتا ہے اور ایران اس عسکری اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/ISPR
راحیل شریف کی پاکستان میں مقبولیت
راحیل شریف پاکستانی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ایک کامیاب، پُرعزم اور قابل تحسین شخصیت کی حیثیت سے عوام اور پاکستانی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
کامیاب فوجی جنرل
راحیل شریف پاکستانی فوج کے 15ویں سربراہ تھے۔ گزشتہ برس انتیس نومبر کو ریٹائر ہونے والے راحیل شریف نے ستائیس نومبر سن دو ہزار تیرہ میں پاکستانی فوج کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔
تصویر: ISPR
عالمی سطح پر پذیرائی
راحیل شریف نے جب پاکستانی فوج کی قیادت سنبھالی تھی تو پاکستان میں امن و سلامتی کی صورتحال ابتر تھی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی اور سول حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان میں قیام امن کی کوششوں کو جاری رکھا۔ ان کوششوں پر انہیں عالمی سطح پر بھی سراہا جاتا ہے۔ اس تصویر میں راحیل شریف جرمن وزیر دفاع اُرزُولا فان ڈیر لاین کے ہمراہ نظر آ رہے ہیں۔