’بلیک کروز‘ نامی ایک عرب ٹیلی وژن سیریز میں انتہا پسند گروپ داعش کے انقلابی اور پرتشدد نظریات کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سیریز میں کئی حقیقی واقعات کو بھی عکس بند کیا گیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ انتہا پسند تنظیم داعش کے تشدد کو مزید نمایاں کرنے کی خاطر ایک ایسا ڈرامہ تیار کیا جا رہا ہے، جس میں ان جنگجوؤں کی طرف سے عام لوگوں پر کیے جانے والے ظلم و ستم کو نمایاں کیا جائے گا۔
غلامی، جہادی سیکس، بچوں اور عورتوں کی ذہن سازی اور خود کش حملے۔ یہ ہیں موضوعات تیس قسطوں پر مشتمل اس ڈرامہ سیریز کے۔ اس ڈرامے کا نام ’کالے کوے‘ رکھا گیا ہے۔ یہ پرندہ مقامی سطح پر بدشگونی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔
یہ ٹی وی ڈرامہ عرب خطے میں انتہائی مقبول سعودی نشریاتی کمپنی MBC نے بنایا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ حقیقی کہانیوں پر مبنی اس ڈرامہ سیریز کی پہلی قسط رواں ہفتے ہی نشر کی جائے گی۔ انتہا پسند گروپ داعش شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہ چکا ہے۔
اس جہادی گروہ کے خلاف عالمی عسکری کارروائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس گروہ کے قبضے سے کئی لوگوں فرار ہونے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ہی کچھ لوگوں کی کہانیاں ’کالے کوے‘ میں بھی شامل کی گئی ہیں۔
سعودی نشریاتی کمپنی MBC کے ڈائریکٹر علی جابر نے ڈی پی اے سے گفتگو میں کہا کہ وہ ایک نظریے کو ایک دوسرے نظریے سے تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں، ’’ہمارا مقصد ہے کہ ہم ایسے موضوعات کو عکس بند کریں، جو اس خطے کے لوگوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرنا شروع ہو گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ اس ڈرامہ سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ داعش کے جہادی کس طرح دنیا کے مختلف خطوں کے مردوں اور عورتوں سے رابطے میں ہیں۔
اس ڈرامے میں جلوہ گر ہونے والے اداکاروں میں مصر، سعودی عرب، کویت، عراق اور شام کے فن کار بھی شامل ہیں۔ شام سے تعلق رکھنے والے اداکار محمد الحمد نے بتایا کہ وہ اس سیریز کا حصہ بننے پر انتہائی خوش ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ ڈارمہ سیریز ہر گھر میں دیکھی جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ دراصل داعش حقیقت میں ہے کیا؟‘‘
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
سعودی اداکارہ اسیل عمران نے ڈی پی اے کو بتایا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ڈرامہ ہے، جو داعش کے ممبران کے اندرونی تعلقات کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے، ’’اس ڈرامہ سیریز کو دیکھنے والے داعش کے بہیمانہ اور بھیانک نظریات سے دہل کر رہ جائیں گے۔‘‘
اسیل عمران اس ڈارمے میں ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہیں، جو داعش کے انتہا پسندانہ نظریات سے متاثر ہو کر اس تحریک میں شامل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ داعش کے پراپیگنڈے نے کئی لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔
سعودی نشریاتی کمپنی MBC نے بتایا ہے کہ یہ ڈرامہ ماہ رمضان میں نشر کیا جائے گا۔ اس کمپنی کا کہنا ہے کہ روزانہ قریب ایک سو پچاس ملین افراد اس کی ٹیلی وژن نشریات دیکھتے ہیں، اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ یہ ڈرامہ بہت زیادہ لوگ دیکھ سکیں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ عرب ممالک میں بالخصوص ماہ رمضان میں ٹیلی وژن دیکھنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ڈرامے کی تیاری پر کتنی لاگت آئی۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔