کامن ویلتھ چیمپئن سعدی عباس کا ملک چھوڑنے پر غور
25 نومبر 2013![](https://static.dw.com/image/17253428_800.webp)
وہ کامن ویلتھ مارشل آرٹس میں یہ کارنامہ انجام دینے والے جنوبی ایشیا کے پہلے کھلاڑی ہیں۔ ڈوئچے ویلے کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سعدی عباس کا کہنا تھا کہ میں اپنی مدد آپ کے تحت چیمپئن بنا، ’’اپنی جیب سے کینیڈا کے سفری اور رہاشی اخراجات برداشت کیے اور پھر طلائی تمغہ بھی جیتا مگر مجھ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انعام تو دور کی بات ہے کسی حکومی شخصیت نے فون کرکے شاباش دینا بھی گوارہ نہیں کیا، جس پر بہت دلبرداشتہ ہوں۔‘‘
سعدی کے بقول اس سے پہلے ایشین چیمپئن بننے پر بھی کسی نے خبر نہ لی تھی، ’’اب میرے پاس دو ہی آپشن ہیں یا تو کھیل سے کنارہ کش ہو جاؤں یا کسی دوسرے ملک کی شہریت لے لوں‘‘۔
سعدی عباس کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے ہے مگر کامن ویلتھ چیمپئن شپ وکٹری اسٹینڈ پر آنے کے لیے انہیں بہت آبلہ پائی کرنا پڑی۔ سعدی کے مطابق پاکستان میں نا مسائد حالات ہونے کے سبب انہیں تیاری کے لیے دبئی جانا پڑا، جہاں ال اہلی کلب نے کوچ سمیت ان کی ہرممکن مدد کی اور مانیٹریال میں سیمی فائنل اور فائنل پاؤں میں فریکچر ہونے کے باوجود جیت کر دکھایا۔
سعدی عباس کی عمر پچیس برس ہے۔ ان کے ہم عصر پاکستانی ایتھیلٹس میں کرکٹر یا ہاکی اولمپیئن بننے کا رواج عام ہے مگر سعدی کہتے ہیں کہ انہوں نے مارشل آرٹ میں اس لیے قدم رکھا کہ اس کھیل میں اس سے پہلے خطے سے کسی نام نہ کمایا تھا، ’’کچھ کر گزرنے کا ایک جنون میرے سر پر سوار تھا اور جب سن 2011ء میں ایشین چیمپئن بنا تو مجھے چین میں بہترین ایتھلیٹ کا ایوارڈ دیا گیا۔‘‘
سعدی عباس کو اب اگلے ماہ دبئی میں ہونیوالی ایشیائی کراٹے چیمپئن شپ میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنا ہے مگر ملک میں سپورٹس منتظیمن کی سیاست غیریقینی کا سایہ بن کر ان کے سر پر منڈلا رہی ہے۔ سعدی کہتے ہیں کہ حکومت کی اجازت کے بغیر وہ ایشین چیمپئن شپ میں شرکت نہیں کر سکتے مگر ابھی تک ایونٹ میں پاکستان کی شرکت کے بارے میں لاعلم ہیں تاہم زخمی ہونے کے باوجود اپنی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سعدی عباس نے پہلی بار دوحہ ایشین گیمز دو ہزار چھ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی وہ عالمی مقابلوں میں درجن کے قریب طلائی تمغے پاکستان کے سینے پر سجا چکے ہیں۔ تاہم سرکارکی طرف سے مسلسل نظر انداز کیے جانے پر اب سعدی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ سعدی کہتے ہیں کہ اس ملک میں کرکٹ اور ہاکی کے کھلاڑیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جا تا ہے، ’’دوسرے ملکوں کے کراٹے کھلاڑیوں کو نہ جیتنے کے باوجود کوچز اور بین الاقوامی مقابلوں میں ہرممکن سہولتیں میسر ہیں یہ سب دیکھ کر میں احساس کمتری کا شکار ہورہا ہوں۔‘‘