1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کام کی جگہ پر بڑے پیمانے پر تشدد اور ہراسانی

6 دسمبر 2022

دنیا بھر میں کام کی جگہوں پر کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اورہراسانی کے واقعات میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ شکار نوجوان تارکین وطن اور خواتین ہو رہی ہیں۔

Frankreich Paris I Protest gegen sexualisierte Gewalt und Femizid
تصویر: Adrienne Surprenant/AP/picture alliance

اقوام متحدہ کی لیبر آرگنائزیشن اور غیر سرکاری تنظیموں  لائیڈز رجسٹر فاؤنڈیشن اور گیلپ کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کام کی جگہوں  پر کارکنوں کوبڑے پیمانے پر تشدد، ہراسانی اور بدسلوکی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ان زیادتیوں کا نشانہ زیادہ تر نوجوان تارکین وطن اور اجرت کمانے والے خاص طور پر خواتین کو بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے سال کے سروے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 121 ممالک میں تقریباً 75 ہزار کارکنوں میں سے 22 فیصد سےکوتشدد یا ہراسانی کی  کم از کم ایک قسم کا تجربہ کرنا پڑا ۔

رپورٹ کے مندرجات

تین عالمی تنظیموں کی  56 صفحات پر  مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا،''مزدوری یا کام کی منڈی میں کارکنوں پر تشدد اور ان کے ساتھ ہراسانی ایک وسیع اور انتہائی نقصان دہ رجحان ہے۔ اس کے منفی جسمانی اور نفسیاتی نتائج انتہائی دور رس ہوتے ہیں۔ دوران روز گار محنت کرنے والوں کے ساتھ ہونے والا تشدد اور ہراسانی کارکنوں کو ذہنی، جذباتی اور جسمانی طور پر جو نقصانات پہنچاتی ہے وہ ان کارکنوں کے ساتھ ساتھ روزگار کی منڈی کے لیے بھی دور رس معاشی نقصانات کا سبب ہے۔ کام کرنے والوں کو پہنچنے والے ذہنی اور جسمانی نقصان کا براہ راست تعلق آجرین کی معاشی صورتحال سے ہے۔

یورپی یونین میں ’انتقامی پورن‘ کے خلاف ایک نوجوان لڑکی کی جنگ

کام کے دوران تشدد اور ہراسانی کے واقعات سے متعلق منظرعام پر آنے والی رپورٹ  میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ سروے میں حصہ لینے والے افراد کی ایک تہائی کا کہنا تھا کہ انہیں ایک سے زیادہ بار تشدد اورہراسانی کا تجربہ ہوا جبکہ  6.3 فیصد نے کہا کہ انہوں نے زیادتیوں کی تینوں شکلوں کا سامنا کیا ہے۔ یعنی کاروباری زندگی کے دوران  جسمانی، نفسیاتی، اور جنسی تشدد۔

ایک ارانی صحافی ماسیح علی نژاد امیرکہ میں ہراسانی کا شکارتصویر: Bonnie Cash/UPI/newscom/picture alliance

 

تشدد کی سب سے عام اشکال

مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف سے رپورٹ کی گئی تشدد کی وارداتوں میں  نفسیاتی تشدد اور ہراساں کرنا سب سے عام پایا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 17.9 فیصد کارکنوں نے اپنی ملازمت کے دوران کسی نا کسی وقت اس صورتحال کا تجربہ کیا۔

جرمنی میں بھی ‘کیٹ کالنگ‘ کے خلاف ایک نوجوان لڑکی سرگرم

سروے میں شامل  8.5 فیصد لوگوں نے کہا کہ انہیں جسمانی تشدد کا تجربہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کام کی جگہ پر تشدد اور ہراساں کرنے کا امکان مردوں کے  مقابلے میں عورتوں کے ساتھ زیادہ پایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق جن  6.3 فیصد نے جنسی تشدد اور ہراسانی کا تجربہ کیا  ان میں سے 8.2 فیصد خواتین اور 5 فیصد مرد تھے۔ کام کی جگہ پر تشدد اور ایذا رسانی کا شکار ہونے والے 60 فیصد سے زیادہ افراد نے کہا کہ یہ ان کے ساتھ متعدد بار ہوا ہے اور اکثریت کے لیے ان میں سے آخری واقعہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران پیش آیا۔

ہراسانی کی بہت سی اشکال ہیںتصویر: MaraMK/Panthermedia/imago images

امتیازی سلوک کن بنیادوں پر؟

مذکورہ تحقیق سے یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ جن لوگوں کو  امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ان کی زندگی کے کسی موڑ پر جنس، کسی قسم کی معذوری، قومیت، نسل، جلد کا رنگ یا مذہب جیسے عوامل کا عمل دخل تھا۔ ان بنیادوں پر امتیازی سلوک کا نشانہ بننے والوں کو کام پر تشدد یا ایذا رسانی کا سامنا ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ رہا جن کے ساتھ  اس قسم کا امتیازی سلوک  نہیں کیا گیا۔

’جسم کے نہاں خانے دکھانے پر چھ ماہ کی جیل‘

 اقوام متحدہ کی لیبر آرگنائزیشن، لائیڈز فاؤنڈیشن اور گیلپ  تینوں نے کہا کہ، ''تشدد کے اعدادوشمار اورکام کی دنیا میں ہراساں کرنا کبھی کبھار اور قلیل تعداد میں ہونے والے واقعات ہیں۔  لہذا انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن نے لائیڈز اور گیلپ کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر انسانوں کے پہلے تجربات کی پیمائش کرنے کے لیے تحقیقی مشق کی۔‘‘

ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی تحقیق مزید تحقیقی کاموں کی راہ ہموار کرتی ہے۔ ان تنیوں تنظیموں کی طرف سے دیے گئے بیان کے مطابق،''بالآخر، مضبوط شواہد زیادہ موثر قانون سازی میں مدد کریں گے۔ ایسی پالیسیاں اور طرز عمل جو تشدد اورہراسانی کی روک تھام کے اقدامات کو فروغ دیں، ان کے پیچھے جن مخصوص دھڑوں کا ہاتھ ہے ان کے خطرات اور بنیادی وجوہات سے نمٹنا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ متاثرین کو ان ناقابل قبول حالات سے نمٹنے میں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا، ایسی تحقیق کے بنیادی مقاصد ہونے چاہییں۔‘‘

ک م / ش خ(اے پی)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں