دنیا بھر میں خواتین کی جانب سے کام کے مقام پر برابری کے سلوک کے مطالبات اور جنسی عدم مساوات کے خلاف بڑھتے جوش کے باوجود صنف کی بنیاد پر موجود فرق کے خاتمے میں کئی صدیاں درکار ہیں۔
اشتہار
بین الاقوامی اقتصادی فورم کی جانب سے صنفی عدم مساوات سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاست، صحت، تعلیم اور کام کے مقامات پر عدم مساوات جیسے شعبوں میں صنفی برابری کے ہدف تک پہنچنے میں ابھی کئی صدیاں درکار ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کے مطابق ان اہم سماجی شعبوں میں صنفی فرق کا خاتمہ سن 2276 تک ممکن ہو پائے گا، یعنی ابھی اس غیرمساوی رویے کے خاتمے میں دو سو ستاون برس درکار ہیں۔
سوئس شہر ڈاووس میں ہر برس دنیا بھر کی تنظیمیں جمع ہوتی ہیں، جہاں عالمی رہنماؤں اور اہم کاروباری شخصیات پر زور ڈالا جاتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے۔ گزشتہ برس صنفی امتیاز سے متعلق ایک جزوی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صنفی امتیاز کے خاتمے میں مزید دو سو دو برس درکار ہوں گے۔ جنیوا میں قائم بین الاقوامی اقتصادی فورم کی جانب سے ایک سو ترپن ممالک میں تعلیم، صحت، اقتصادی مواقع، اور سیاسی اختیارات کے شعبوں کے جائزے کے بعد کہا گیا ہے کہ ابھی دنیا صنفی مساوات سے صدیوں دور ہے۔
خواتین کا عالمی دن: ایشیائی ممالک میں صنفی مساوات
گزشتہ چند برسوں میں صنفی مساوات کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود آج بھی ایشیائی خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشین ممالک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
تصویر: NDR
افغانستان
افغانستان میں امریکا کے زیر سربراہی بین الاقوامی فوجی اتحاد نے سن 2001 میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت میں طالبان کی ممکنہ نمائندگی کا مطلب ہے کہ خواتین ایک مرتبہ پھر تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
تصویر: Getty Images/R. Conway
ایران
ایرانی خواتین کی ایک فٹ بال ٹیم تو بن چکی ہے لیکن وہاں آزادی اور خودمختاری کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ ایرانی وکیل نسرین سوتودیہ کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ اسکارف کی پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کر رہیں تھیں۔
تصویر: Pana.ir
پاکستان
یہ پاکستان کی پہلی کار مکینک عظمٰی نواز (درمیان میں) کی تصویر ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک خواتین کی آزادی کے راستے پر گامزن ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں خواتین ’عورت آزادی مارچ‘
#AuratAzadiMarch میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza
بھارت
بھارت میں ’خواتین بائیکرز‘ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے مثبت اقدام کے باوجود خواتین جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔ گزشتہ برس، بھارت میں متعدد خواتین نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے آواز بلند کی۔ #MeToo مہم کے ذریعے متاثرہ خواتین معاشرے کے طاقتور مردوں کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
انڈونیشیا
انڈونیشی خواتین ملکی ترقی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو قدامت پسند مذہبی قوانین کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر آچے صوبے میں شرعی قوانین نافذ کیے جانے کے بعد خواتین کو اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا اور خواتین کا نا محرم مردوں سے بات چیت کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔
تصویر: Imago/C. Ditsch
سری لنکا
سری لنکا میں صنفی مساوات کی صوتحال قدراﹰ بہتر ہے۔ سری لنکن خواتین تعلیم اور روزگار کا انتخاب خود کر سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا شاید واحد ایسا ملک ہے، جہاں خواتین کو صحت اور تعلیمی سہولیات تک بھرپور رسائی حاصل ہے۔
تصویر: Imago/Photothek
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی عوام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک خاتون کا بطور وزیراعظم انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق میں واضح بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تاہم روزگار کی منڈی میں خواتین کی نمائندگی ابھی بھی کم ہے اور صحت و تعلیم تک محدود رسائی ہے۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
چین
چینی خواتین کو بلاشبہ ملک کی تیز معاشی ترقی سے فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن ان کو سماج میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آج بھی بچیوں کی پیدائش کے حوالے سے سماجی تعصب موجود ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تعلیم تک محدود رسائی فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
8 تصاویر1 | 8
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس ان شعبوں میں بہتری آئی ہے اور دنیا بھر میں صنفی امتیاز میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی امتیاز کے اعتبار سے کچھ شعبوں میں بہتری کا رجحان دیکھا گیا ہے، لیکن کچھ شعبوں میں حالات مزید خراب بھی ہوئے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کی اس رپورٹ کے مطابق صنفی بنیادوں پر عمومی سطح کی برابری کے لیے بھی قریب ایک صدی درکار ہے، یعنی دنیا میں صنفی امتیاز کا خاتمہ ہم اپنی زندگی میں نہیں دیکھ پائیں گے۔
عالمی اقتصادی فورم کا کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے، جہاں دنیا بھر میں صنفی بنیادوں پر تعلیم سے محرومی کے اعتبار سے 96 فیصد فرق کم ہو چکا ہو اور اگر اسی رفتار سے اس شعبے پر توجہ دی گئی، تو اگلے بارہ برسوں میں دنیا بھر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مساوی مواقع پیدا ہو جائیں گے۔