1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کانگریس انتخابات اور جنوبی ایشیا میں موروثی سیاست کا مستقبل

23 اکتوبر 2022

راجے مہاراجے تو چلے گئے مگر جنوبی ایشیا میں جمہوری لبادہ اوڑھے موروثی سیاست گزشتہ نصف صدی سے چھائی ہوئی ہے۔ بھارت میں گاندھی، نہرو خاندان، پاکستان میں شریف و بھٹو فیملی اور بنگلہ دیش میں شیخوں کا دبدبہ عشروں سے قائم ہے۔

روہنی سنگھتصویر: Privat

حال ہی میں کانگریس پارٹی کے اندرونی انتخابات میں ایک غیر گاندھی اور دلت لیڈر ملک ارجن کھرگے کے صدر منتخب ہونے کے بعد سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا خاندانی سیاست اب آخری دور میں داخل ہو گئی ہے؟ کیا ابھرتی ہوئی مڈل کلاس میں ان موروثی چہروں کے لیے کشش باقی نہیں بچی؟

ان میں شاید سب سے زیادہ قابل رحم حالت راہول گاندھی کی ہے۔ جب سے انہوں نے جنوبی ایشیا کی پہلی سیاسی پارٹی کانگریس کی کمان سنبھالی، وہ تنزلی کا شکار ہے۔ وہ دو مرتبہ لوک سبھا کے انتخابات اور پچھلے دس برسوں میں 49 میں سے 39 اسمبلی انتخابات ہار چکے ہیں۔ ہار بھی ایسی ویسی نہیں، لوک سبھا میں اس وقت اس پارٹی کے پاس بس پچاس کے آس پاس ہی ممبران ہیں۔

 ویسے تو پچاس کی دہائی میں کانگریس نے ہی خطے میں موروثی سیاست کی بنیاد ڈالی، جب ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو سیاست میں متعارف کرایا۔

 پارٹی میں غیر گاندھی- نہرو افراد کئی مرتبہ صدر کے عہدرے پر رہے ہیں مگر عملی طور پر کمان گاندھی- نہرو فیملی کے پاس ہی رہی اور انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کا وہ ایک چہرہ تھے۔ مگر اب تو یہ طے ہو چکا ہے کہ ان کے نام اور ان کے چہرے کو دیکھ کر عوام ووٹ نہیں دیتے ہیں۔

 آزادی کے فوراﹰ بعد مہاتما گاندھی نے جواہر لعل نہرو سے کانگریس پارٹی کو تحلیل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ گاندھی کے نزدیک کانگریس پارٹی کا مقصد برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ یہ ہندو مہاسبھا یا کمیونسٹ پارٹی کی طرز پر کوئی نظریاتی پارٹی نہیں تھی۔ یہ مختلف افراد کا مجموعہ تھی، جس میں لیفٹ، رائٹ، سیکولر ، نان سیکولر غرض ہر طرح کے لوگ شامل تھے، جو برطانیہ سے آزادی چاہتے تھے۔ لہذا کانگریس کو سیکولر پارٹی کہنا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے۔

چونکہ اس کا کوئی نظریہ نہیں تھا، اس لیے اس کو اکھٹا رکھنے کا کام ایک خاندان کرتا تھا۔ موروثی سیاست اس کی بقاء کے لیے ضروری بن گئی۔ اسی لیے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) وقتاﹰ فوقتاﹰ کانگریس پارٹی کی خاندانی سیاست کو نشانہ بناتے آئی ہے۔

 مہاتما گاندھی نے کانگریس کو تحلیل کرنے کے مسئلے پر، جو نہرو سے کہا تھا، اس کا ذکر کرنے کا بی جے پی کبھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔

اب خاندانی سیاست کے خلاف مودی کی مہم کو ختم کرنے کے لیے کانگریس پارٹی نے دو دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد ایک غیر گاندھی صدر کا انتخاب کیا ہے۔ راہول گاندھی نے صدارتی انتخاب کی دوڑ سے خود کو باہر رکھا۔

 دلت لیڈر ملکارجن کا سیدھا مقابلہ معروف مصنف اور عالمی شہرت یافتہ سفارت کار ششی تھرور کے ساتھ تھا۔ جبکہ گاندھی خاندان نے کھرگے کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا، اس کے باوجود تھرور نے اپنی مہم جاری رکھی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس انتخابی عمل سے کانگریس پارٹی نے ایک تیر سے کئی نشانے سادھے ہیں۔ پارٹی نے یہ پیغام دیا ہے کہ کانگریس کے اندر ایک مضبوط داخلی جمہوریت ہے اور یہ محض ایک خاندانی پارٹی نہیں ہے، جیسا کہ بی جے پی دعویٰ کرتی آ رہی ہے۔ کھرگے کے سربراہ کے طور پر دلت برادری کو راغب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پارٹی میں راہول گاندھی کی پوزیشن اب بادشاہ سے زیادہ بادشاہ گر کے طور پر رہے گی۔

راہول گاندھی پارٹی میں کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز نہی ہیں۔ وہ اس وقت 3000 کلومیٹر طویل ’بھارت جوڑو‘ یاترا پر ہیں، جو سات ستمبر کو بھارت کے جنوبی سرے کنیا کماری سے شروع ہو گئی ہے۔ اس مارچ کا اختتام اگلے سال فروری میں کشمیر میں ہو گا۔ 

راہول الیکشن لڑنے کے بجائے پارٹی لیڈر کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگلے جنرل الیکشن سے قبل ملک میں نو اسمبلی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں، جن میں تلنگانہ کو چھوڑ کر بقیہ سبھی صوبوں میں کانگریس کا براہ راست مقابلہ بی جے پی کے ساتھ ہے۔ ان انتخابات میں ہار کا مطلب یہ ہے کہ جنرل الیکشن میں وہ اپوزیشن اتحاد کے سربراہی کرنے کی دعویدار نہیں ہو گی۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے گاندھی خاندان نے نہایت ہی شاطر داؤ لگایا ہے۔ اگر پارٹی انتخابات ہار جاتی ہے تو اس کا ٹھیکرا پارٹی صدر کے سر پر پھوڑا جائے گا۔ اگر جیتتی ہے تو سہرا راہول گاندھی کے لانگ مارچ کو جائے گا۔

سیاسی تجزیہ کار بلال سبزواری، جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے کانگریس پارٹی کو کور کر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخاب ایک انوکھا تجربہ ہے اور اگر یہ کامیاب ہو جاتا ہے تو شاید نئی تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔

 راہول گاندھی کے پردادا موتی لال نہرو اور پھر جواہر لال نہرو سے ہوتے ہوئے، ان کی دادی اندرا گاندھی، ان کے والد راجیو گاندھی اور پھر ان کی والدہ سونیا گاندھی، سبھی کانگریس پارٹی کے صدر کے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ ان سب نے پارٹی کو الیکشن بھی جتوائے ہیں۔

راہول گاندھی، جو 2017 سے19ء تک پارٹی کے صدر تھے، نے 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی انتہائی خراب کارکردگی کے بعد اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ تب سے سونیا گاندھی پارٹی کی قائم مقام چیئرپرسن تھیں۔

کیا کانگریس پارٹی کا یہ تجربہ کامیابی سے ہم کنار ہو گا؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا وہ اس نئی قیادت کے تحت 2024ء کے عام انتخابات میں واپسی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا ملک کے منظر نامہ سے پوری طرح سے صاف ہو جاتی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ایک کانگریس مکت بھارت کا بھی نعرہ لگایا تھا یعنی بھارت کی کانگریس سے آزادی۔

جنوبی ایشیا کی اس قدیم ترین جماعت کی کامیابی یا ناکامی پاکستان اور بنگلہ دیش کے سیاسی خاندانوں کے لیے بھی سبق کا کام کرے گی۔ لہذا ان ممالک میں بھی کانگریس پارٹی کے اندر ہونے والی پیش رفت کو نہایت غور سے دیکھا جا رہا ہے۔

راہول گاندھی کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس سال کے شروع میں پاکستان میں احتجاجی مارچ کیا تھا۔ بھٹو کے مارچ نے عمران خان کی حکومت کو گرانے میں ایک اہم رول ادا کیا۔

اگرچہ دوسری سیاسی جماعتیں خاندانی سیاست پر تنقید کرتی رہتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہی خاندانوں کی وجہ سے ہی اس برصغیر کے ممالک کامیاب جمہوریتیں قائم کر سکے۔ تجربہ کار پاکستانی صحافی نصرت جاوید کہتے ہیں، ’’جن خاندانوں کو اب سیاسی خاندانوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، انہوں نے اپنے خطے میں آزادی کی جنگ اور جمہوریت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘

معروف مورخ اور ماہر عمرانیات ابن خلدون نے کہا تھا کہ کسی بھی خاندان کی شان چار نسلوں سے زیادہ نہیں رہتی۔ اس کا زوال اس کے عروج کے عمل میں ہی شامل ہوتا ہے۔ پہلی نسل فتوحات کی طرف مائل ہوتی ہے، دوسری انتظامیہ کی طرف اور تیسری فتح یا نظم و نسق کی ضرورت سے آزاد ہوتی ہے۔

 وہ آباؤ اجداد کے ذریعے حاصل کی ہوئی دولت کو خرچ کرنے میں وقت صرف کرتی ہے اور جب چوتھی نسل مسند اقتدار تک پہنچتی ہے تو وہ دولت اور انسانی سرمایہ سے محروم ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ راہول گاندھی خاندان کی چھوتھی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں