بھارت میں قومی گیت ’وندے ماترم‘ پر ایک نئی ’جنگ‘ شروع
9 دسمبر 2025
بھارت کا قومی ترانہ رابندر ناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا ’’جن گن من‘‘ ہے لیکن بنکم چندر چٹرجی کی نظم ’’وندے ماترم‘‘ کو قومی گیت کا درجہ حاصل ہے۔ ان دنوں اس گیت کی 150ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے پیر کے روز پارلیمنٹ کے ایوان زیریں، لوک سبھا، میں تقریباﹰ دس گھنٹے کی بحث ہوئی۔ آج ایوان بالا، راجیہ سبھا، میں اس پر بحث ہو گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے الزام لگایا کہ کانگریس پارٹی نے 1937 میں اس گیت کے ’’اہم بند نکال کر دراصل تقسیم کے بیج بوئے۔‘‘
مودی کا کہنا تھا، ’’وندے ماترم بھارت کی آزادی کی جدوجہد کی آواز بن گیا تھا، یہ ہر بھارتی کے جذبات کی ترجمانی کرتا تھا۔ بدقسمتی سے 1937 میں وندے ماترم کے اہم بند سے اس کی روح کو نکال دیا گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’وندے ماترم کی تقسیم نے ہی تقسیمِ ہند کے بیج بوئے۔ آج کی نسل کو جاننا چاہیے کہ اس 'قومی تعمیر کے مہا منتر‘ کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں ہوئی۔ یہ تقسیم پسند ذہنیت آج بھی ملک کے لیے ایک چیلنج ہے۔‘‘
وزیر اعظم مودی نے کانگریس پر الزام لگایا کہ اس نے مسلم لیگ اور محمد علی جناح کو خوش کرنے کے لیے قومی گیت کو مختصر کر دیا۔ مودی کے مطابق جواہر لال نہرو نے محمد علی جناح کے اعتراضات پر سر تسلیم خم کرکے گیت کے اہم بند اس سے نکال دیے۔ ’’جس سے ملک ایک فرقے کی خوشامد پسندی کی سیاست کی جانب بڑھنے لگا، جو آخرکار تقسیمِ ہند کا سبب بنی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ وندے ماترم صرف ایک لفظ نہیں بلکہ ایک منتر، ایک توانائی، ایک خواب اور ایک پختہ عزم ہے۔
اپوزیشن کا ردعمل
وزیر اعظم مودی کے الزامات پر اپوزیشن نے ایوان کے اندر اور باہر دونوں جگہ سخت ردِعمل ظاہر کیا۔
لوک سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گوگوئی نے یاد دلایا کہ کانگریس پارٹی نے ہی وندے ماترم کو قومی گیت کا درجہ دیا تھا۔
کانگریس کی رکن پارلیمنٹ پریانکا گاندھی نے کہا کہ ملک کی توجہ ضروری مسائل سے ہٹانے کے لیے ایوان میں ’وندے ماترم' پر بحث کرائی جا رہی ہے۔ ’’آج ملک بہت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، پیپر لیک جیسے مسائل پر ایوان میں بحث کیوں نہیں ہو رہی؟ ریزرویشن کے ساتھ چھیڑچھاڑ اور خواتین کی حالت پر بحث کیوں نہیں ہو رہی؟‘‘
اسد الدین اویسی نے کہا، بھارت کے آئین کی شروعات ’بھارت ماتا' سے نہیں بلکہ ’ہم بھارت کے لوگ‘ سے ہوتی ہے۔ اور بھارتی آئین ساز بابا صاحب امبیڈکر نے ’مادرِ ہند‘ کے نظریے کو مسترد کر دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ’بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہو گا‘ کا نعرہ آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اویسی نے کہا، ’’میں ایک مسلمان ہوں اور اسلام پر یقین رکھتا ہوں اور خدا کے سوا کسی کو نہیں مانتا، اور آئین مجھے یہی حق دیتا ہے۔ میرا مذہب میرے ملک سے محبت کے درمیان رکاوٹ نہیں۔‘‘
’یہ گیت شرک ہے‘
بھارتی مسلمانوں کی معروف تنظیم جمیعت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ وندے ماترم نظم شرکیہ عقائد و افکار پر مبنی ہیں۔
بالخصوص اس کے چار اشعار میں واضح طور پر وطن کو ہندوؤں کی معبود درگا ماتا سے تشبیہ دے کر اس کی عبادت کے لیے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور یہ مسلمانوں کے بنیادی عقیدے اور ایمان کے خلاف ہے۔
مولانا مدنی کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی کے وندے ماترم پڑھنے اور گانے پر اعتراض نہیں لیکن ہم شرکیہ اعمال میں شریک نہیں ہو سکتے، اسی لیے ہمیں یہ قبول نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’’وطن سے محبت الگ چیز ہے اور اس کی عبادت الگ چیز۔ مسلمانوں کو اس ملک کتنی محبت ہے اس کے لیے ان کو کسی کے سرٹیفیکٹ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
مولانا مدنی نے کہا کہ بھارت کے آئین کے تحت کسی بھی شہری کو اس کے مذہبی عقیدے اور جذبات کے خلاف کسی نعرے، گیت یا نظریے کو اپنانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اور سپریم کورٹ کا بھی واضح فیصلہ ہے کہ کسی بھی شہری کو قومی گیت یا کوئی ایسا گیت گانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جو اس کے مذہبی عقیدے کے خلاف ہو۔
جناح نے اس گیت پر اعتراض کیا تھا
وندے ماترم بنکم چندر چیٹرجی کے ناول ’آنند مٹھ‘ میں شامل ہے، جو مسلمانوں کی حکمرانی کے خلاف سنیاسیوں کی بغاوت پر مبنی ہے۔ مسلم لیگ کو اس گیت کے بعض حوالوں پر اعتراض تھا اور اس کا یہ بھی ماننا تھا کہ ’مادرِ وطن کو سجدہ کرنا‘ بت پرستی کے مترادف ہے۔ محمد علی جناح اس گیت کے نمایاں ناقدین میں شامل تھے۔
اکتوبر 1938 میں کراچی میں منعقدہ سندھ صوبائی مسلم لیگ کانفرنس میں جناح نے کہا تھا، ’’کانگریس نے قانون ساز اسمبلیوں کا آغاز وندے ماترم کے گیت سے کیا، جو نہ صرف بت پرستانہ ہے بلکہ اپنی اصل اور مواد کے اعتبار سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا گیت ہے۔‘‘
دراصل اس تنازع کی جڑ یہ ہے کہ وندے ماترم بعض بند ہندو دیوی-دیوتاؤں کی تعریف پر مشتمل ہیں۔ اس لحاظ سے مکمل گیت یا اس کے تمام بند کو پڑھنے کو مسلمان مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے رد کرتے ہیں۔
جدوجہد آزادی کے دوران اسی مذہبی حساسیت کے مدنظر کانگریس نے انیس سو سینتیس میں اپنے اجلاس کے دوران اس کے صرف ابتدائی دو بندوں کو منظور کیا تھا۔ لیکن اب ہندو قوم پرست جماعتیں اور حکومت کا کہنا ہے کہ ’وندے ماترم‘ صرف ایک گیت نہیں بلکہ آزادی کی جدوجہد کی علامت، قومیت کی علامت اور ایک وحدت کا نعرہ ہے۔
ادارت: شکور رحیم