کانگو میں مہلک ایبولا وائرس کی نئی وبا، سترہ انسان ہلاک
8 مئی 2018
افریقی ملک ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو میں ایک بار پھر انتہائی مہلک ایبولا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کے نتیجے میں حکام نے کم ازکم سترہ انسانی ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ زیادہ تر ہلاکتیں شمال مغربی شہر بیکورو میں ہوئیں۔
اشتہار
کانگو کے دارالحکومت کنشاسا سے منگل آٹھ مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ملکی حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ یہ وائرس، جو ماضی میں بھی بہت زیادہ شہری ہلاکتوں کی وجہ بنا تھا، اب تک ایک بار پھر قریب ڈیڑھ درجن انسانوں کی جان لے چکا ہے۔
منگل کی سہ پہر تک ملنے والی رپورٹوں میں ملکی محکمہ صحت کے دو اعلیٰ حکام کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ شروع میں شمال مغربی کانگو کے شہر بیکورو میں یہ ہلاکتیں صرف دو تھیں اور مشتبہ طور پر اس وائرس کی وجہ سے بیمار ہونے والے شہریوں کی تعداد دس تھی۔ لیکن پھر چند گھنٹے بعد ہی منگل کی شام حکام کے حوالے سے یہ تصدیق بھی کر دی گئی کہ ایبولا وائرس کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد اب سترہ ہو گئی ہے۔
شروع میں اس وائرس کی نئی وبا کی وجہ سے دو افراد کے ہلاک ہو جانے کی تصدیق ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو کے نیشنل بائیولوجیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے بھی کر دی تھی۔ بعد میں سترہ ہلاکتوں کی اطلاع ملکی وزارت صحت کے اعلیٰ حکام کے حوالے سے دی گئی۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو میں مجموعی طور پر یہ نواں موقع ہے کہ وہاں ایبولا وائرس کی وجہ سے شہری ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ پہلی بار اس وائرس کا پتہ 1970 کی دہائی میں چلا تھا اور تب اس انتہائی ہلاکت خیز جرثومے کو مشرقی کانگو میں دریائے ایبولا کی نسبت سے اس کا نام دے دیا گیا تھا۔ تب اس وائرس کے پھیلاؤ نے زیادہ تر اسی دریا کے ساتھ ساتھ واقع علاقوں کو متاثر کیا تھا۔
ایبولا وائرس: دنیا خوف میں مبتلا
مغربی افریقی ممالک میں چار ہزار افراد ایبولا کے مرض کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں اس وائرس کی نشاندہی کے بعد دنیا بھر میں اس وبا کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایبولا امریکا اور اسپین میں بھی
امریکی ریاست ٹیکساس میں ایک نرس کے ابیولا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد پولیس نے اس کے گھر کی ناکہ بندی کر دی تھی۔ یہ مغربی افریقی ممالک سے باہر ایبولا کا دوسرا واقعہ تھا۔ ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں بھی ایک نرس ایبولا سے متاثرہ ایک مریض کے علاج کے دوران اس وائرس کا شکار ہو گئی تھی۔
تصویر: Reuters/Jaime R. Carrero
گینی: ایبولا کا پہلا مریض
گزشتہ برس گینی کے ایک گاؤں میلاندو میں پہلی مرتبہ ایبولا کی نشاندہی ہوئی تھی۔ چھ دسمبر 2013ء کو دو سالہ ایک بچہ ایبولا کا شکار ہوا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس وائرس سے ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ بعد میں اس مرض نے بچے کی بہن، والدہ اور دادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مارچ 2014ء میں گینی کی حکومت نے عالمی ادارہ صحت کو ایبولا کے پھیلاؤ کے حوالے سے اطلاع دی تھی۔
گینی سے لائبیریا منتقلی
اس موقع پر ایبولا گینی سے پڑوسی ملک لائبیریا تک پہنچ چکا تھا۔ ساتھ ہی سیرا لیون میں بھی کچھ افراد میں اس وائرس کی نشاندہی ہوئی تھی۔ لائبیریا کے دارالحکومت مونروویا میں نرسیں اور ہسپتال کا دیگر عملہ آج کل ہڑتال پر ہے، جس کی وجہ سے صورت حال کے مزید بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ سینیگال اور نائجیریا میں اس دوران اس حوالے سے حالات کافی حد تک کنٹرول میں ہیں۔
ایبولا کی روک تھام ممکن ہے
ایبولا جسم میں موجود سیال، خون کی منتقلی یا بیمار افراد کے فُضلے یا قے وغیرہ سے کسی قسم کے رابطے کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ اسی وجہ سے گھر میں رہنے والے افراد یا ڈاکٹر اور طبی عملے کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ جینیوا میں عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تواتر کے ساتھ ڈس انفیکشن اور حفاظتی سوٹ کے پہننے سے خود کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ابھی تک چار سو ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد ایبولا کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Guyot
بڑھتی ہوئی ہلاکتیں
ابھی تک چار ہزار سے زائد افراد اور دو ہزار سے زائد لاشوں میں ایبولا کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی سربراہ مارگریٹ چن نے منیلا میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کہا تھا کہ ایبولا سے پوری دنیا کو خطرہ ہے۔ ایشیا میں ابھی تک ایبولا سے ملتی جلتی اقسام سامنے آئی ہیں، جو ہلاکت خیز نہیں ہیں۔
جرمنی میں ایبولا کے مریضوں کا علاج
جرمنی میں اس دوران ایبولا سے متاثرہ افراد کا علاج کیا جا رہا ہے۔ یہ مریض مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے کارکن ہیں۔ ان کے علاج کے لیے فرینکفرٹ اور لائپزگ میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ صحت کے امور سے متعلق جرمن وزیر ہیرمان گرؤہے کے بقول جرمنی میں اس وائرس کے پھیلنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Orlowski
6 تصاویر1 | 6
افریقہ میں پچھلی مرتبہ ایبولا وائرس کی وبا کانگو ہی میں ایک سال سے بھی کم عرصہ قبل دیکھی گئی تھی، جب اس وسطی افریقی ملک میں آٹھ شہری اس سے متاثر ہوئے تھے ، جن میں سے چار انتقال کر گئے تھے۔
ایبولا وائرس کے پھیلاؤ میں چمگادڑیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں، جو خود بیمار ہوئے بغیر دور دراز کے علاقوں تک اس وائرس کو دوسرے پرندوں، حیوانات اور انسانوں تک پہنچا دیتی ہیں۔
اس وائرس کی پچھلی بہت ہلاکت خیز وبا دو برس قبل وسطی افریقہ میں دیکھنے میں آئی تھی، جب یہ جان لیوا جرثومہ قریب ساڑھے گیارہ ہزار افراد کی ہلاکت اور قریب انتیس ہزار کے بیمار ہو جانے کی وجہ بنا تھا۔ تب اس وائرس کی وبا کا سب سے زیادہ سامنا گنی، سیرا لیئون اور لائبیریا جیسے ممالک کو کرنا پڑا تھا۔
م م / ع ا / اے ایف پی
جانور سے انسان اور پھر وبا تک
عالمی ادارہء صحت ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ایبولا کی ہولناک وبا چمگادڑوں کی وجہ سے پھیلی ہے، جن کے جسم میں اس کا وائرس ہوتا ہے۔ یہ وائرس انسانوں تک اس لیے پہنچتا ہے کہ افریقہ میں چمگادڑ کا گوشت شوق سے کھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وائرس پھیلانے والے
افریقہ میں مختلف قسموں کی چمگادڑوں، خاص طور پر فلائنگ فوکس کہلانے والی چمگادڑ کے جسم میں مختلف طرح کے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن میں ایبولا کا وائرس بھی شامل ہے۔ خود ان جانوروں کے لیے بے ضرر یہ وائرس انسانوں کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ افریقہ کے بہت سے ملکوں میں لوگ بڑے سائز کی چمگادڑ کو اُس کے گوشت کی وجہ سے شکار کرتے ہیں اور یوں یہ وائرس آسانی سے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خطرہ گھات لگائے ہوئے
جریدے ’پی ایل او ایس نیگلیکٹڈ ٹراپیکل ڈیزیزز‘ میں محققین نے کہا ہے کہ چمگادڑوں کی کئی اَقسام کے اندر یا تو ایک طویل عرصے سے یہ وائرس موجود تھا اور وہ ابھی تک اتفاق سے انسانوں تک نہیں پہنچا تھا یا پھر اس وائرس کی حامل کوئی چمگادڑ وسطی افریقہ سے اُن علاقوں تک پہنچی ہے، جہاں اب ایبولا ایک وبا کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔
تصویر: imago
وائرس آگے پہنچانے والے جانور
بعض دفعہ چمگادڑ مختلف طرح کے پھل کھاتے ہیں اور اُنہیں پوری طرح سے ہضم کرنے سے پہلے ہی باہر اُگل دیتے ہیں۔ جب ہرن اور دیگر جانور ان پھلوں کی نیچے گری ہوئی باقیات کو کھاتےہیں تو یہ وائرس اُنہیں بھی متاثر کرتا ہے اور وہ آگے یہ وائرس انسانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔
تصویر: DW
محققین کا انتباہ
افریقہ میں جنگلی جانوروں کو شکار کرنا اور اُن کا گوشت کھانا ایک معمول کی بات ہے۔ ’بُش مِیٹ‘ کے طور پر ان جانوروں کا گوشت بازاروں میں کھلے عام فروخت کیا جاتا ہے۔ محققین خبردار کر رہے ہیں کہ جنگلی جانوروں میں ایسے ایسے وائرس موجود ہوتے ہیں، جن کا انسان کو ابھی اندازہ تک بھی نہیں ہے۔
تصویر: DW
وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ
ان جانوروں کے گوشت کو کاٹنے اور تیار کرنے کے عمل میں بے پناہ خطرات موجود ہیں۔ ان جانوروں کے خون یا اُن کے جسم میں موجود دیگر لیس دار مادوں کے ساتھ رابطے میں آنے کی صورت میں انسان اس طرح کے وائرس کا آسانی سے شکار ہو سکتا ہے۔ یورپ میں بھی، جہاں چمگادڑوں میں محض چند ایک خطرناک وائرس ہی پائے گئے ہیں، ننگے ہاتھوں کے ساتھ انہیں چھُونے سے منع کیا جاتا ہے۔