1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کاوان کی روانگی کے بعد اسلام آباد چڑیا گھر میں بڑی تبدیلیاں

1 مارچ 2021

اسلام آباد کا ’مرغزار چڑیا گھر‘ کنکریٹ کی تنگ چار دیواری اور وہاں جانوروں کی خراب نگہداشت کی وجہ سے کچھ اچھی شہرت نہیں رکھتا تھا۔ اب اس کی تعمیر نو کے لیے ساڑھے سات ملین ڈالر کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔

Pakistan I Marghazar Zoo I Islamabad
تصویر: Farooq Naeem/AFP

اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کو عدالتی حکم پر بند کر دیا گیا تھا کیوں کہ وہاں جانوروں کی دیکھ بھال کا مناسب انتظام نہیں تھا۔  اس چڑیا گھر میں موجود ہاتھی کو دنیا کا تنہا ترین ہاتھی قرار دیا گیا تھا اور آخر کار جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی کوشش سے اسے بھی بیرون ملک منتقل کر دیا گیا۔ تاہم اب مرغزار چڑیا گھر میں بڑی اور مثبت تبدیلیاں لانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

اسلام آباد کے 'وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ ‘ کے مینیجر وقار ذکریا کا کہنا ہے،'' ہم نے کوئی 380 جانوروں کو عارضی طور پر پاکستان کے اندر اور بیرون ملک محفوظ مقامات میں منتقل کر رکھا ہے۔ ان میں بندر، نیل گائیں، ہرن، زیبرا اور بھالو وغیرہ شامل ہیں۔‘‘ ذکریا نے یقین دلایا ہے کہ یہ جانور واپس لائے جائیں گے۔ ان کے بقول،''ان جانوروں کو اسیری میں نہیں رکھا جائے گا، انہیں واپس لا کر قدرتی رہائش گاہ میں آزادی سے چلنے پھرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ ایک قدرتی مقام میں قومی پارک کے اندر۔‘‘

اس مجوزہ  مرکز میں زخمی دیسی جانوروں کے علاج اور ان کی صحت کی بحالی کے لیے تمام تر سہولیات بھی موجود ہوں گی اور یہ اس نوعیت کا پاکستان کے اندر قائم ہونے والا پہلا مرکز ہو گا۔ 'ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر ان پاکستان‘ کے ڈائریکٹر رب نواز کے بقول،'' یہ پیش قدمی غیر معمولی اور شاندار ہے۔‘‘دریں اثناء پاکستان کی وزارت ماحولیات نے اس چڑیا گھر کی بحالی کا چارج سنبھال لیا ہے اور اب اس چڑیا گھر کے ساتھ ساتھ ایک بڑے 'نیچر کنزرویشن سینٹر‘ کے قیام کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔

مرغزار چڑیا گھر میں بیزار ہاتھی کاوان۔تصویر: AFP/A. Qureshi

ماضی میں کیا ہوا؟

اسلام آباد نہ صرف پاکستان کے دارالحکومت کی حیثیت سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ وہاں کی ہریالی، آب و ہوا اور قدرتی مناظر اس کی دلکشی اور پُرکشش ہونے کا سبب ہیں۔ ایسے خوبصورت شہر میں ستر کی دہائی میں قائم ہونے والا ایک چڑیا گھر سیاحت کے فروغ کا منبہ ہو سکتا تھا تاہم ہوا اس کے بالکل برعکس۔

پاکستان ميں زنجیريں تھيں جس کا مقدر، اب کمبوڈيا ميں آزاد پھرے گا

 سن 1978ء میں اسلام آباد میں قائم ہونے والا 'مرغزار چڑیا گھر‘ لگ بھگ تیس ایکٹر زمین پر پھیلا ہوا تھا۔ وہاں جانوروں کی دیکھ بھال پر مامور عملہ اپنے تئیں جانوروں کی مناسب دیکھ بھال کر رہا تھا۔ اس کے باوجود جانوروں کی بقاء اور ان کے حقوق کے لیے سرگرم عناصر اس چڑیا گھر کی مجموعی صورتحال سے مطمئن نہیں تھے۔

 دوسرے یہ کہ اسلام آباد کا یہ چڑیا گھر قدرتی پودوں وغیرہ سے محروم تھا اور وہاں موجود جانوروں کے اندر ایک غیر فطری رویہ پایا گیا۔ ان کے رویے سے صاف پتا لگتا تھا کہ وہ کلاسیکی طرز کے پنجروں میں رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر اس چڑیا گھر کے حالات اتنے خراب ہوئے کہ گزشتہ سال ہائی کورٹ کے ایک جج نے اسے بند کرنے اور تمام جانوروں کو دیگر جگہوں پر منتقل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

کاوان کو رخصت کرنے والی ٹیم۔تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

چڑیا گھر کا خاتمہ

ہائی کورٹ کے جج کے حکم پر مرغزار چڑیا گھر کو بند کرنے کا عمل ایک بڑے سانحے سے کم نہ تھا۔ چڑیا گھر کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں نے شیروں کو منتقل کرنے کے لیے، جس جگہ سے انہیں نکالنا تھا وہاں ارد گرد گھاس کا ڈھیر لگا تھا۔ وہاں آگ لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ دو شیر ہلاک ہو گئے۔ دیگر جانوروں کی منتقلی کا عمل بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام نہیں پا سکا۔

کاوان کے ساتھ کیا ہوا؟

اسلام آباد کے اس چڑیا گھر کی سب سے بڑی کشش وہاں کا  35 سالہ ہاتھی 'کاوان‘ تھا۔ اس کی صورتحال پر جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں سمیت اندرون و بیرون ملک جانوروں سے محبت اور ان کا احترام کرنے والوں نے بہت سخت مہم چلائی۔ کاوان پاکستان میں اس نسل کا آخری ہاتھی تھا۔ آٹھ برس قبل اس کے ساتھی کا انتقال ہو گیا تھا۔ تب سے یہ تنہا اس چڑیا گھر میں رہ رہا تھا اور اس کی ذہنی اور جذباتی حالت روز بروز خراب ہو رہی تھی۔ کچھ عرصہ قبل مرغزار چڑیا گھر سے کاوان کی کچھ تصاویر اور ویڈیو کلپس منظر عام پر آئیں۔ ان میں کاوان انتہائی ناخوش کبھی دیوار سے سر ٹکراتا، کبھی  ان زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ تصاویر اور ویڈیو کلپس سوشل میڈیا کے ذریعے بہت تیزی سے پھلیں اور جانوروں کے تحفظ اور ان کی بقاء کا کام کرنے والی تنظیموں اور نوجوانوں کی غیر معمولی توجہ کا باعث بنیں۔ ان سب نے مل کر '' فری کاوان دی ایلیفنٹ‘ نامی ایک بین الاقوامی مہم شروع کی جو ایک امریکی پاپ گلو کارہ کی شمولیت سے غیر معمولی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ لاکھوں افراد نے اُس پیٹیشن کا ساتھ دیا جس میں کاوان کو آزاد کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔

کاوان ہاتھی کی روانگی: پاکستان میں امریکی گلوکارہ چَیر کی عمران خان سے ملاقات

 

اپنے ساتھی کے انتقال کے بعد کاوان شدید ڈپریشن کا شکار۔تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

کاوان کوگزشتہ برس کے آخر میں کمبوڈیا منتقل کر دیا گیا۔ اس بڑی منتقلی کے لیے امریکی سپر اسٹار گلوکارہ نے فنڈ جمع کر کے اس کی مالی معاونت کی۔ اب یہ ہاتھی شمالی کمبوڈیا میں اپنے درجنوں ساتھیوں کے ساتھ سینکڑوں ایکڑ زمین کے رقبے پر دوڑتا پھر رہا ہے۔ اس کے پاکستان میں قیام کے آخری سال بہت بے چینی اور تکلیف میں گزرے تھے۔      

کاوان کی منتقلی پر عمران حسین رنجیدہ

کاوان کی صورتحال پر بین الاقوامی سطح پر تشویش نے جیسے جیسے زور پکڑا ویسے ہی پاکستان میں  'وائلڈ لائف مینیجمنٹ بورڈ اور جانوروں کے حقوق سے متعلقہ اداروں نے کاوان کی دیکھ بھال پر توجہ مر کوز کی۔ عمران حسین نامی ایک شخص کو باقاعدہ تربیت دی گئی اور اس نے انتہائی سنجیدگی اور خلوص دل سے کاوان کی نگرانی کی ذمہ داری قبول کی اور اُسے نبھانے کی کوشش کرتا رہا۔ یہاں تک کہ کاوان کمبوڈیا تک کے سفر کا متحمل ہو سکا۔

کاوان کے بھی اچھے دن آئیں گے

کاوان کا رکھوالا اُس کے جانے کے بعد سے بہت افسردہ ہے۔تصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

 کاوان تو کمبوڈیا میں اپنے ساتھی ہاتھیوں کے ساتھ اب بہت خوش ہے مگر عمران حسین بہت اُداس ہے کیونکہ کاوان بہت جلدی اس سے مانوس ہو گیا تھا۔ عمران حسین کہتا ہے،'' میں جب بھی اس چڑیا گھر میں آتا ہوں اس خالی پنجرے کو دیکھ کر میرا دل بیٹھنے لگتا ہے میرے اندر کچھ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ وہ کاوان کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے، '' ہر صبح میں جب یہاں آتا تھا تو کاوان اپنا سونڈھ اُٹھا کر میرا استقبال کرتا تھا۔ وہ اپنی خوشی اور غصے دونوں کے اظہار کے طور پر مجھ پر پانی پھینکا کرتا تھا۔‘‘

عمران اپنے دوست کی جدائی کے دکھ کے باوجود اس لیے خوش ہے کہ اُس کے بقول اُس نے کاوان کی نئی ویڈیوز  دیکھی ہیں، جس میں وہ  بہت خوش نظر آتا ہے۔ عمران کہتا ہے،'' میں خدا سے اُس کی طویل عمر کے لیے دعُا گو ہوں۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں