کاوان ہاتھی کی رخصتی پر امریکی گلوکارہ چَیر پاکستان میں
28 نومبر 2020
ممتاز گلوکارہ و اداکارہ چَیر ان دنوں اسلام آباد کے ایک چڑیا گھر کے ’تنہا ہاتھی‘ کاوان کی کمبوڈیا منتقلی کے جشن کے لیے پاکستانی دورے پر ہیں۔ انہوں نے جمعہ ستائیس نومبر کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی۔
اشتہار
امریکی گلوکارہ چَیر کو پوپ موسیقی کی دیوی (Goddess) کہا جاتا ہے۔ 74 سالہ آرمینیائی نژاد گلوکارہ نے فلموں میں بھی اداکاری کی ہے۔ ان کا فلمی اور گلوکاری کا عہد چھ دہائیوں پر محیط رہا ہے۔
سکیورٹی خدشات کے تناظر میں ان کے پاکستانی دورے کو عام نہیں کیا گیا۔ انہوں نے گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی۔ ان کو پاکستانی وزیر اعظم نے ملک میں ماحول دوست منصوبوں اور کلائمیٹ چینج کے حوالے سے ملکی ترجیحات کے بارے میں بتایا۔
کاوان سے ملاقات
چَیر کے پاکستانی دورے کا اہم ترین مقصد اسلام آباد کے چڑیا گھر کے ہاتھی کاوان سے ملاقات ہے۔ کاوان کو اتوار انتیس نومبر کو کمبوڈیا میں قائم ہاتھیوں کے ایک نیشنل پارک روانہ کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے چڑیا گھر کے خراب حالات کو دیکھتے ہوئے چَیر نے بھی کاوان کی صحت اور اس کو کسی دوسرے ملک منتقل کرنے کے حق میں آواز بلند کی تھی۔
کاوان کی تربیت اور صحت میں بہتری کے لیے جانوروں کی نگہداشت کی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیم 'فور پاز‘ کے نمائندے بھی پاکستان میں ہیں۔ ان ماہرین نے کاوان کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کی خصوصی تربیت بھی کی تا کہ وہ بحفاظت کمبوڈیا کا سفر مکمل کر سکے۔
اسلام آباد کا چڑیا گھر اور کاوان کی حالت
کاوان کو پینتیس برس اسلام آباد کے چڑیا گھر میں زنجیر کے ساتھ باندھ کر رکھا گیا تھا۔ اس کی ساتھی ہتھنی سن 2012 میں بدن کے گلنے سڑنے کے مہلک انفیکشن سے مر گئی تھی۔ افسوس ناک بات یہ تھی کہ اس کا مردہ جسم کئی دنوں تک کاوان کے قریب ہی پڑا رہا اور اس کے انتہائی منفی اثرات نے نر ہاتھی کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
غیر حکومتی تنظیم 'فور پاز‘ کے ڈاکٹر عامر خلیل کا کہنا ہے کہ جب وہ پاکستان آئے تھے تو کاوان انتہائی پژمردہ، بیمار اور نفسیاتی اعتبار سے کمزور ہو چکا تھا۔ جانوروں کے حقوق کے سرگرم افراد نے کاوان کو دنیا کا 'تنہا اور اکیلا ہاتھی‘ قرار دے رکھا تھا۔ ڈاکٹر عامر خلیل نے کاوان کے کئی زخموں کا مکمل علاج کیا۔
کاوان کی کمبوڈیا منتقلی میں 'فور پاز‘ بھی شامل ہے اور اس کے اہلکار اُسے نئی منزل تک پہنچا کر واپس جائیں گے۔ فور پاز کے مطابق کمبوڈیا کے ایلیفینٹ نیشنل پارک منتقلی کے بعد بھی کاوان کا جسمانی اور نفسیاتی علاج جاری رکھا جائے گا۔
اشتہار
کاوان پر دستاویزی فلم
کاوان کے حق میں امریکی گلوکارہ چَیر نے بھی اور لوگوں کے ساتھ مل کے بھرپور آواز بلند کی تھی۔ انہوں نے کاوان کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بنانے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران چَیر نے کاوان کے علاج اور اس کی کمبوڈیا منتقلی کے فیصلے اور حکومتی کاوشوں کو سراہا۔
فور پاز کے ماہرین گزشتہ تین ماہ سے کاوان کا علاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ علاج کے دوران اُسے سبزیاں اور پھل بطور خوراک دیے گئے۔ فور پاز تنظیم نے چَیر جیسی بڑی میڈیا شخصیات کے جانوروں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کو ایک احسن اقدام قرار دیا ہے۔
ع ح، ع آ (اے پی)
جانوروں کی سننے کی غیرمعمولی صلاحتیں
ارتقا کے سفر میں انسانوں نے اپنی سماعت کی حسیات کھو دیں۔ ہم ہاتھیوں کی طرح نچلے تعدد کی آواز نہیں سن سکتے اور چمگادڑوں کی طرح کی اونچی فریکوئنسی کی سماعت سے عاری ہوتے ہیں مگر ہم نے اپنی سماعت کو بہتر بنانا ضرور سیکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
خرگوش اور کانوں کا گھماؤ
خرگوش اپنے کانوں کو 270 درجے تک گھما کر سننے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کانوں کی حرکت اسے شکار بننے سے بچاتی ہے، مگر خرگوش کے کان رویے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کھڑے کان بتاتے ہیں کہ وہ توجہ سے سن رہے ہیں اور جب ایک کان کھڑا ہو اور ایک بیٹھا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ خرگوش توجہ دیے بغیر سن رہا ہے۔ دونوں کان پشت پر جڑی حالت میں گرے ہوں، تو سکون کی علامت ہے۔ اسی حالت میں علیحدہ کان خوف کا اشارہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
بلی اور کتا نہایت متوجہ ہیں
کتے انسان سے زیادہ بلند تعدد کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اسی لیے آپ کا کتا اس وقت بھی ردعمل دکھا سکتا ہے، جب آپ کو وہاں کچھ نظر نہ آئے۔ کتے اپنے مالک اور اجنبیوں کے قدموں کی چاپ میں فرق تک کر سکتے ہیں۔ بلیاں سماعت میں اس سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ کتوں کے پاس کانوں کے 18 پٹھے ہوتے ہیں جب کہ بلیوں میں یہ تعداد 30 ہے۔ بلیاں اپنے کانوں کو 180 درجے گھما بھی سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Faber
چمگادڑوں کا سننے کے لیے الٹراسانک موجوں کا استعمال
چمگادڑ گمک کے ذریعے رات کے دوران پرواز کا راستہ طے کرتی ہیں۔ یہ اپنے منہ سے الٹراسونک یا بالائے صوت موجیں خارج کرتی ہیں، جو پلٹ کر ان تک آتی ہیں۔ اس ذریعے سے چمگادڑ آواز کی موجوں سے کسی شے کے حجم اور مقام کا تعین کرتی ہیں اور گھپ اندھیرے میں بھی خوراک تلاش کر لیتی ہیں۔ چمگادڑوں کے پاس کانوں کے 20 پٹھے ہوتے ہیں، جن کے ذریعے یہ گمک کو سننے کے لیے اپنے کانوں کی جہت تبدیل کر لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library/J. Daniel
عالم حیوانات کا بہترین سامع مگر کان نہیں ہیں
عالم حیوانات میں سب سے بہترین سماعت ویکس موتھ ہے، جسے ارتقا نے چمگادڑوں سے بچنا سکھا دیا ہے۔ ان کے کان نہیں ہیں، مگر ان کی سننے کی صلاحیت انتہائی حساس ہے۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں ایک سو پچاس گنا بہتر سن سکتے ہیں جب کہ چمگادڑوں کے مقابلے میں 100 ہرٹز زیادہ تعدد کی آوازیں بھی سن سکتے ہیں۔
بھنورے، جھینگر اور کیڑے اپنے شکاریوں کی جانچ کے لیے الٹراسونک موجوں کو سماعت کرتے ہیں۔ شکاریوں سے فاصلہ بنانے کے لیے یہ آڑا ترچھا یا دائروں میں اڑنے کا ہنر استعمال کرتے ہیں۔ بعض جھینگر اور بھنورے مخصوص آواز پیدا کر کے اپنے شکاری کو ڈرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Schultz
وہیل، چلتی پھرتی آبدوزیں
آب دوزوں کے سفر کے لیے وہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے، جو چمگادڑ یا وہیل مچھلیاں گھپ اندھیرے میں سفر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اندھیرے میں وہیل مچھلیاں آواز کی موجیں پیدا کر کے اور گمک سن کے اپنی خوراک بھی تلاش کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہیل مچھلیاں آواز کے ذریعے اپنے آس پاس کے ماحول کا سہہ جہتی خاکہ جان لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Poelzer
ڈولفن جبڑوں سے سنتی ہیں
ڈولفن کے کان ہوتے ہیں، مگر وہ سمندر میں سفر کے لیے چمگادڑوں کی طرز کا نظام استعمال کرتی ہیں۔ ان کی جبیں سے صوتی لہریں نکلتی ہیں جب کہ پلٹ کر آنے والی ان لہروں کو ڈولفن کے دانت اور جبڑے وصول کرتے ہیں۔ سننے کے لیے کبھی کبھی کان درکار نہیں ہوتے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Peolzer
ہاتھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ محسوس کر سکتے ہیں
اپنے بڑے بڑے کانوں کے ذریعے ہاتھی بارش سے قبل جمع ہونے والے بادلوں کی آواز تک محسوس کر لیتے ہیں۔ ہاتھی انفرا صوتی موجوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پیروں کی حرکت کی وجہ سے زمین پر پیدا ہونے والی ارتعاش تک کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. Reichelt
الو جیسے فطرت کا نگران کیمرہ
الوؤں کے پاس فقط رات میں دیکھنے یا اپنے سر کو تین سو ساٹھ درجے گھمانے ہی کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ ان کی سماعت بھی غیرمعمولی ہوتی ہے۔ ان کے کان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اڑتے ہوئے یہ ایک کان سے اوپر سے آنے والے صوتی موجیں محسوس کر سکتے ہیں اور ایک کان سے نیچے سے آتی آوازیں۔ اس پر ان کی رات میں دیکھ لینے کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ ان کا شکار بچ نہیں سکتا۔
تصویر: DW
نابینا افراد چمگادڑوں کی طرح سننے کی مشق کر سکتے ہیں
بعض نابینا افراد گمک کو محسوس کر کے اپنے ماحول کو جانچ سکتے ہیں۔ بعض افراد اپنے منہ سے آواز نکال کر اس کی بازگشت سن لیتے ہیں جب کہ بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فقط گمک سن کر اپنے ماحول کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔