کبوتر بازوں کا سب سے بڑا عالمی میلہ جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں
2 جنوری 2020
دنیا بھر میں کبوتر بازوں کا سب سے بڑا عالمی میلہ کہلانے والی تجارتی نمائش چار اور پانچ جنوری کو جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں منعقد ہو گی، جس میں مختلف براعظموں سے آنے والے بارہ ہزار سے زائد نمائش کنندگان اور مہمان شرکت کریں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Strauch
اشتہار
جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ڈورٹمنڈ سے جمعرات دو جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق پالتو یا شوقیہ پالے جانے والے کبوتروں کی یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی بین الاقوامی نمائش اسی جرمن شہر میں نئے سال کے پہلے ویک اینڈ پر چار اور پانچ جنوری کو منعقد ہو گی۔
یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک سے آنے والے 200 سے زائد نمائش کنندگان اپنے پالتو اور پرواز کے مقابلوں کے لیے استعمال ہونے والے کبوتروں اور ان سے متعلق مختلف مصنوعات کے ساتھ اس دو روزہ تجارتی میلے میں شرکت کریں گے۔ اس 'ٹریڈ فیئر‘ کی منتظم اور جرمنی میں کبوتر پالنے والوں کی نمائندہ ملکی تنظیم وی ڈی بی (VDB) کے مطابق یہ تجارتی نمائش دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اجتماع ہوتی ہے۔
اس تنظیم کی ایک خاتون ترجمان نے بتایا کہ اس عالمی میلے میں اس سال پہلی بار ایسے پالتو پرندوں کی بہت متنوع اقسام کی نمائش بھی کی جا رہی ہے، جنہیں عام طور پر ان کے دلکش ہونے کی وجہ سے گھروں میں پنجروں میں رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/O. Pieper
جرمنی کی 'پَیٹ پیجن بریڈرز ایسوسی ایشن‘ کے مطابق ماضی میں جب جرمنی میں کبوتر بازی کا شوق کبھی عروج پر تھا، تو کبوتر پالنے والے شہریوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ اب یہ تعداد کم ہو کر 30 ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔ تاہم جرمنی کے کئی دیہی علاقوں میں کبوتر بازی اب پھر سے ایک پسندیدہ عوامی مشغلہ بنتی جا رہی ہے۔
ایشیا میں کبوتر بازی ایک دیرینہ روایت
مشرقی یورپی ممالک میں سے پولینڈ اور بلغاریہ میں کبوتر پالنا ایک پسندیدہ عوامی مشغلہ ہے جبکہ یہی عوامی شوق کئی مشرقی ایشیائی ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ جہاں تک جنوبی ایشیائی ممالک کی بات ہے، تو پاکستان اور بھارت جیسی ریاستوں میں تو یہ دیرینہ شوق عام ہے اور بہت سے شہریوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر کبوتر پال رکھے ہوتے ہیں، جن کے درمیان پرواز کے باقاعدہ مقابلوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
جرمنی میں کبوتر بازی کے اسی شوق پر جانوروں کے تحفظ کی ملکی تنظیم کی طرف سے کڑی تنقید بھی کی جاتی ہے۔ اس تنظیم کا الزام ہے کہ جرمن کبوتر باز آپس میں ان پرندوں کے جن مقابلوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان میں ہر سال ہزاروں کبوتر ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں۔
م م / ع ب (ڈی پی اے)
ترکی کا کبوتر بازار
ترکی کے شورش زدہ جنوب مشرقی علاقے شان لی اُرفا میں کبوتر اور ان کی نیلامی لوگوں کی تفریح کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ شوقین حضرات اس شوق پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
شان لی اُرفا میں کبوتروں کی نیلامی
گتے کے ڈبوں میں بھرے یہ کبوتر تین چائے خانوں کی طرف منتقل کیے جا رہے ہیں۔ شان لی اُرفا کا یہ علاقہ کبوتروں کی خریدوفرخت کے حوالے شہرت رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا شوق ہے جو سینکڑوں سالوں سے موجود ہے۔ صرف ترکی میں ہی نہیں بلکہ ہمسایہ جنگ زدہ ملک شام میں بھی۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
شورش زدہ علاقہ
ترکی کا جنوب مشرقی علاقہ شان لی اُرفا شامی سرحد سے محض 50 کلومٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں کُرد عسکریت پسندوں اور ترک فوج کے جھڑپوں کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود اس علاقے میں کبوتر بازی کا شوق اور یہ کاروبار چل رہا ہے۔
کبوتروں کے بارے میں جوش و جذبہ
اگر آپ قریب سے اس کبوتر کو دیکھیں تو اس کی گردن پر ایک چھوٹا سا زیور دیکھا جا سکتا ہے۔ اس زیور کو ’’سیاہ کِنفرلی‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کی قیمت ایک ہزار ترک لِیرا ہے یعنی 243 ڈالرز کے برابر۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
مہنگا شوق
کبوتر فروخت کرنے والے دلداس فخر نے بتایا، ’’ایک مرتبہ میں نے ایک کبوتر 35 ہزار لِیرا (8500 یورو) میں فروخت کیا۔ یہ ایسا شوق ہے جسے آپ روک نہیں سکتے۔ میں نے کبوتر خریدنے کے لیے ایک مرتبہ گھر کی فریج اور اپنی بیوی کا سونا بھی فروخت کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
پر امن دوست
کبوتر بازی کے شوقین یہ افراد غروب آفتاب سے قبل اپنی اپنی چھتوں پر پہنچ جاتے ہیں اور اپنے کبوتروں کو پرواز کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ پرواز کی تربیت کے دوران سینکڑوں کبوتر فضا میں اُڑتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ 55 سالہ ریسیت گوزیل کے مطابق پرندے ان کے دوست ہیں۔ انہیں ان کے ساتھ سکون ملتا ہے۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
کبوتروں کے لیے ادویات
کبوتروں کی نیلامی کے ساتھ ساتھ یہاں ان پرندوں کے لیے وٹامن، اینٹی بائیوٹکس اور دیگر ادویات بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ گوزیل اپنے 70 کبوتروں کو پابندی کے ساتھ بہترین خوراک اور وٹامن دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/U. Bektas
شامی تنازعے کا اس شوق پر اثر
جب شامی تنازعے کی ابتداء ہوئی تو شامی علاقے سے لوگ آ کر اپنے کبوتر ترکی میں بیچ جاتے تھے جس کی وجہ سے یہاں پر ان پرندوں کی قیمتیں کافی کم ہو گئی تھیں۔ 23 سالہ اسماعیل ازبک کے مطابق جیسے جیسے شامی تنازعہ شدت پکڑتا گیا تو وہاں سے کبوتر آنے کا سلسلہ رُک گیا اور یہاں ان کی قیمتیں بھی کافی بڑھ گئیں۔