کبھی نہ ہارنے والا بھی ہار گیا: نکی لاؤڈا انتقال کر گئے
مقبول ملک مارکو لانگر / ع ا
21 مئی 2019
نکی لاؤڈا جب بات کرتے ہوئے لیجنڈ کا لفظ استعمال کرتے تھے، تو ان کی جرمن زبان کا آسٹرین لہجہ انتہائی واضح ہوتا تھا۔ساتھ ہی انہیں یہ علم بھی ہوتا تھا کہ لیجنڈ کیا ہوتا ہے۔ وہ خود بھی موٹر ریسنگ کی دنیا کے ایک لیجنڈ تھے۔
اشتہار
موٹر ریسنگ کی دنیا میں جب کوئی ڈرائیور کسی بہت تیز رفتار گاڑی میں کسی مقابلے میں حصہ لیتا ہے، تو یہ مقابلہ کسی ایسے ٹریک پر منعقد ہو رہا ہوتا ہے، جسے عرف عام میں سرکٹ کہتے ہیں اور سبھی ڈرائیوروں کو اس سرکٹ پر راؤنڈز یا چکروں کی ایک خاص تعداد مکمل کرنا ہوتی ہے۔
1979ء میں جب نکی لاؤڈا نے یہ کہا تھا، ’’بس، میں اب دائروں میں بہت گاڑی چلا چکا،‘‘ تو وہی وہ لمحہ تھا جب انہوں نے فارمولا ون موٹر ریسنگ کے ’کِنگز کلاس‘ کہلانے والے مقابلوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا تھا۔
نکی لاؤڈا تین مرتبہ فارمولا ون موٹر ریسنگ کے عالمی چیمپئن رہے تھے، ایک بار وہ ریس کے دوران ایک انتہائی خطرناک حادثے میں تقریباﹰ موت کے منہ میں جا کر معجزانہ طور پر واپس لوٹے تھے اور ان کے جسم کا کافی زیادہ حصہ بری طرح جل گیا تھا۔
آگ کے ان شعلوں کے نشان ان کے جسم اور چہرے پر آخری وقت تک موجود تھے۔ اپنی تیسری عالمی چیمپئن شپ انہوں نے اس حادثے کے بعد دوبارہ اپنا کیریئر بحال کرتے ہوئے جیتی تھی۔
نکی لاؤڈا کا پورا نام آندریاز نکولاؤس لاؤڈا تھا اور نکی لاؤڈا انہیں پوری دنیا پیار سے پکارتی تھی۔ وہ صرف ایک بہت کامیاب اور شاندار کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ایک انتہائی کامیاب بزنس مین بھی تھے۔ انہوں نے کئی فضائی کمپنیوں کی بنیاد بھی رکھی، کئی مرتبہ انہیں ہوش ربا نقصانات ہوئے، وہ حالات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور بھی ہوئے لیکن وہ گرنے کے بعد ہر بار دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے عادی تھے۔
اسی لیے ان کے انتقال پر بہت سے ماہرین اور ان کے قریبی دوست صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ موت کسی کو معاف نہیں کرتی۔ وہ جو کبھی کسی سے نہیں ہارا تھا، جس نے کبھی شکست تسلیم نہیں کی تھی، وہ بھی ہار گیا۔ پیدائشی طور پر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے تعلق رکھنے والے نکی لاؤڈا 70 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
گزشتہ برس موسم گرما میں نکی لاؤڈا کے ایک پھیپھڑے کی پیوند کاری بھی ہوئی تھی اور اس کے بعد سے ہی ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی، وہ دوبارہ کبھی پوری طرح صحت یاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے اپنی 70 ویں سالگرہ اس سال 22 فروری کو منائی تھی۔ کل پیر 20 مئی کو نکی لاؤڈا کا انتقال ہو گیا۔
انہوں نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ اور پانچ بچے چھوڑے ہیں۔ جرمنی اور آسٹریا میں کھیلوں کے شعبے سے وابستہ شخصیات اور موٹر ریسنگ کی دنیا کے بین الاقوامی حلقے ان کے انتقال پر انتہائی افسردہ ہیں۔ وہ جو ہر طرح کے مشکل حالات سے ہمیشہ بچ نکلتا تھا، وہ بھی موت کے آگے ہار گیا۔
میشائل شوماخر: فارمولا وَن لیجنڈ پچاس برس کے ہو گئے
میشیائل شوماخر کو فارمولان وَن کار ریسنگ کا بہترین ڈرائیور تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ فارمولا ون میں سات ڈرائیور چیمپئن شپ جیتنے کا ریکارڈ اور اعزاز رکھتے ہیں۔ وہ پچاس برس کے ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Melchert
کیرئر کی ابتدا
میشائیل شوماخر جرمن شہر کولون کے نواح میں تین جنوری سن 1969 کو پیدا ہوئے۔ دوسرے ڈرائیورز کی طرح انہوں نے بھی فارمولا وَن کار ریسنگ کی ابتدا ’کارٹ ریسنگ‘ سے کی۔ شوماخر نے بارہ برس کی عمر میں کارٹ ریسنگ کا لائسنس حاصل کیا۔ وہ جرمنی اور یورپ کی کارٹ ریسنگ چیمپئن شپ بھی جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ اس تصویر میں وہ اپنے بھائی رالف شوماخر کے ساتھ ہیں۔ شوماخر فیملی کیرپن میں کارٹ سینٹر بھی رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/BREUEL-BILD/ABB
فارمولا وَن کی شروعات
شوماخر نے سن 1991 میں فارمولا وَن کار ریسنگ کی ابتداء کی۔ اُن کی ٹیم میں ایڈی جورڈن تھے۔ تصویر میں ایڈی جورڈن بائیں جانب ہیں۔ یہ تصویر بیلجین گراں پری کے وقت لی گئی تھی۔ شوماخر سن 1991 میں کار ریسنگ کے پہلے راؤنڈ میں گاڑی کی تکنیکی خرابی پر دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Panimages
بینیٹن کا انتخاب
شوماخر نے سن 1991 میں فارمولا ون کی پہلی ریس سے دستبرداری کے بعد پانچ اور مقابلوں میں حصہ لیا۔ اُس کے بعد انہوں نے کیمل بینیٹن فورڈ کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ پہلے برس وہ ڈرائیورز چیمپئن شپ میں صرف چار پوائنٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اس طرح وہ پوائنٹس ٹیبل پر چودہویں پوزیشن حاصل کر سکے۔
تصویر: picture alliance / dpa
اولین گراں پری کی فتح
ایک ہی سال بعد شوماخر نے پہلی گراں پری بیلجیم کے مقام اسٹیویلوٹ میں جیتی۔ وہ بیلجین گراں پری کے اسٹیویلوٹ ٹریک کو پسندیدہ ترین ٹریک قرار دیتے ہیں۔ سن 1992 میں شوماخر ڈرائیورز چیمپئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل پر تیسرا مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ تصویر میں وہ برطانوی ڈرائیور نائیجل مینسل کے ہمراہ چیمپئن شپ ٹرافی کے ساتھ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA
پہلی ڈرائیورز چیمپئن شپ
شوماخر نے پہلی مرتبہ ڈرائیورز چیمپئن شپ سن 1994 میں جیتی۔ یہ سال فارمولا ون مقابلوں میں حصہ لینے والے دو ڈرائیوروں اییرٹن سینا اور رولینڈ راٹسنبیرگر کی ناگہانی اموات کا سال بھی ہے۔ یہ دونوں سان مورینو گراں پری کے دوران حادثے کا شکار ہوئے تھے۔ اس تصویر میں شوماخر آسٹریلوی شہر ایڈیلیڈ میں اپنی پہلی ڈرائیورز چیمپئن شپ ٹرافی کے ساتھ ہیں۔ وہ اگلے برس اس اعزاز کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Panimages
فراری کے ساتھ تعلق
مسلسل دو برسوں تک ڈرائیورز چیمپئن شپ جیتنے کے بعد شوماخر نے فراری کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ فراری پر ہی انہوں نے سن 2000 سے سن 2004 تک مسلسل پانچ برسوں تک ڈرائیورز چیمپئن شپ جیتنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس تصویر میں سن 1996 میں ہسپانوی گراں پری جیتنے کے بعد وہ مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Melchert
کوئی فرشتہ نہیں
سن 1997 میں شوماخر ایک ریس کے دوران اپنے ٹریک سے باہر نکل گئے۔ وہ کینیڈن ڈرائیو ژاک ویلینوو کا راستے روکنے کی کوشش میں تھے اور نتیجہ کاروں کے ٹکراؤ نکلا۔ اس حادثے کے بعد فارمولا ون ریسنگ کی تنظیم نے جرمن ڈرائیور کو سن 1997 کے پورے سیزن میں شرکت سے باہر کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/ASA/LAT Photographic
آخری جیت
شوماخر نے اپنے فارمولا وَن کیریئر کا اکیانواں مقابلہ چینی شہر شنگھائی میں جیتا۔ یکم اکتوبر سن 2006 میں حاصل ہونے والی یہ کامیابی شوماخر کی آخری جیت تھی۔ انہوں نے فارمولا وَن کار ریسنگ سے ریٹائر منٹ لینے کا اعلان کر دیا۔ سن 2007 میں وہ فراری کار ساز ادارے کے مشیر مقرر کر دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Breloer
فارمولان وَن کے ساتھ موٹر سائیکلنگ ریس
فارمولا وَن کار ریسنگ سے ریٹائرمنٹ کے بعد شوماخر نے موٹر سائیکلنگ میں دلچسپی بڑھا لی۔ وہ موٹر سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ لینے کی کوشش کرنے لگے۔ سن 2009 میں ایک ہزار سی سی کی ہنڈا موٹر سائیکل کی آزمائش کے دوران انہیں ایک حادثے کا بھی سامنا رہا۔ اس حادثے کی وجہ سے ان کی ریڑھ کی ہڈی، پسلیوں اور سر کے نچلے حصے میں چوٹیں آئیں۔
تصویر: Getty Images
ریٹائرمنٹ ختم اور فارمولا ون میں واپسی
سن 2010 میں شوماخر نے مرسیڈیز بینز کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت ریٹائرمنٹ ختم کرتے ہوئے فارمولا ون ریسنگ میں حصہ لینے کا دوبارہ اعلان کر دیا۔ واپسی کے دو برس بعد وہ یورپی گراں پری ویلنسیا میں تیسری پوزیشن حاصل کر سکے۔ وہ اس کامیابی پر سب سے عمر رسیدہ ڈرائیور بن گئے۔ شوماخر نے سن 2012 میں مسلسل اپنے نام سے کم کارکردگی دکھانے کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
اسکیینگ کا حادثہ
انتیس دسمبر سن 2013 کو شوماخر اسکیینگ کرتے ہوئے اپنا کنٹرول کھو بیٹھے اور ایک سنگین حادثے کا شکار ہو کر رہ گئے۔ ہیلمٹ پہننے کے باوجود انہیں سر پر شدید چوٹیں آئیں کیونکہ وہ سر کے بَل ایک چٹان سے جا ٹکرائے تھے۔ وہ جون سن 2014 میں کومے سے باہر آ تو گئے لیکن بدستور سوئٹزرلینڈ کے شہر گالینڈ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر مقیم ہیں۔
تصویر: Getty Images
ایک اور شوماخر!
فارمولا ون کار ریسنگ میں شوماخر خاندان سے صرف میشائل ہی ٹریک پر نہیں اترے تھے بلکہ ان کے چھوٹے بھائی رالف بھی فارمولا ون مقابلوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ وہ کُل چھ مقابلے جیت سکے تھے۔ اب میشیائل کا بیٹا مِک فارمولان ریسنگ کے ٹریک پر اتر چکا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں مِک شوماخر اپنے والد کی طرح کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیں۔