1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کتابیں اور برطانیہ کی ورکنگ کلاس

13 جنوری 2022

برطانیہ کی ورکنگ کلاس کی تشکیل پر اے۔ پی ٹامسن کی ایک کتاب میں ان تمام سیاسی و سماجی مراحل کا ذکر ہے، جن کے اتقائی عمل کے نتیجے میں ورکنگ کلاس وجود میں آئی۔ اس سلسلے میں مطالعے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

Mubarak Ali
تصویر: privat

جوناتھن روز نے اس کے برعکس اپنی کتاب The Intellectual life of British میں انگریزی ورکنگ کلاس کی تعمیر میں خاص طور سے تعلیم کا ذکر کیا ہے۔ ان کے بقول کتابوں کے مطالعے نے ورکنگ کلاس کے ذہن کو بدلا۔

روز نے خاص طور سے ورکنگ کلاس کے مصنفین کی آپ بیتیوں سے مواد لیا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے ان کی ملنے والی ڈائریاں اور ان کتابوں کا بھی ذکر کیا ہے، جو انہوں نے مختلف کتب خانوں سے لے کر پڑھی تھیں۔ یہ کتابیں مختلف مرحلوں میں بدلتی رہی تھیں۔ ابتدائی دور میں جبکہ خواندگی کی شرح کم تھی اس وقت صرف بائبل کو ہی پڑھا جاتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ عام لوگ ریاست کے وفادار رہیں اور مذہبی اعتقادات پر ایمان رکھیں۔

ہنری VIII کے دور حکومت میں بائبل کے انگریزی ترجمے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور جنہوں نے اس کی خلاف ورزی کی تھی ان میں آٹھ افراد کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بائبل کے پڑھنے سے ان میں کوئی طبقاتی شعور پیدا نہ ہو جائے۔

لیکن صنعتی انقلاب کے بعد جب ورکنگ کلاس پیدا ہوئی اور انہوں نے فیکٹریوں میں کام کرنا شروع کیا اور ٹریڈ یونین نے ان میں اتحاد پیدا کیا تو ان میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ علم کے ذریعے اپنے سماجی رتبے کو تبدیل کریں، لیکن برطانیہ کی اشرافیہ نہیں چاہتی تھی کہ ورکنگ کلاس تعلیم حاصل کرے کیونکہ اس صورت میں ان کے اور ورکنگ کلاس کے درمیان سماجی فرق کے ختم ہونے کا خطرہ موجود تھا۔

علم کے حصول میں ورکنگ کلاس کو پرنٹنگ پریس کی وجہ سے سستی کتابیں ملنے کا موقع مل گیا اور کتب خانوں کے قیام میں ان کو یہ موقع دیا کہ وہ کتابیں کتب خانے سے لے کر پڑھ سکیں۔ اس طرح دو قسم کا تعلیمی نظام عمل میں آیا۔

ایک وہ تعلیمی نظام تھا جو اشرافیہ کے لیے مخصوص تھا اور جہاں ورکنگ کلاس کے لیے داخلہ ممکن نہ تھا۔ لہٰذا ورکنگ کلاس نے اپنی تعلیم کا خود انتظام کیا۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے اور کوئی کتاب پڑھ کر سناتا تھا۔

دوسرے علم کے وہ شائقین تھے جو کتاب خرید کر پڑھتے تھے۔ مثلاً سکاٹ لینڈ کے جولاہوں میں کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا وہ اپنا کام بھی کرتے جاتے تھے اور کتابیں بھی پڑھتے جاتے۔ دوسرے کتابوں کو پڑھنے والے چرواہے تھے وہ مویشیوں کو چراتے ہوئے کتب بینی کا سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے۔

ورکنگ کلاس نے امداد باہمی کی سوسائیٹیاں قائم کی تھیں جن کے اجلاس ہوتے رہتے تھے اور جہاں سیاسی اور سماجی مسائل پر بحث و مباحثے ہوتے تھے۔ اسی سے تعلق رکھنے والا ایک تھیٹر گروپ بھی ہوتا تھا جہاں خاص طور سے شیکسپیئر کے ڈرامے اسٹیج کیے جاتے تھے۔

موسیقی کے کلب بھی ہوتے تھے جہاں بیتھوون اور موزارٹ وغیرہ کی موسیقی پیش کی جاتی تھی۔ ان سب سرگرمیوں کا نتیجہ یہ تھا کہ ورکنگ کلاس میں سیاسی اور سماجی آگہی پیدا ہوئی۔

ورکنگ کلاس کے لیے یہ کہنابھی درست نہیں کہ وہ سستا لٹریچر پڑھتے تھے۔ وقت کے ساتھ ان میں یہ شعور پیدا ہو گیا تھا کہ اعلیٰ ادب کا مطالعہ کریں۔ ان میں خاص طور سے چارلس ڈکنز بڑا مقبول تھا جبکہ دوسرے مصنفین میں بائرن اور پوپ بھی قابل ذکر تھے۔

جب برطانیہ میں بائیں بازو کی تحریکوں کی ابتداء ہوئی تو ورکنگ کلاس کی اکثریت نے اس میں پوری طرح سے شرکت نہیں کی۔ مثلاً لیبر پارٹی کا جب قیام عمل میں آیا تو اس کے ابتدائی اراکین میں کوئی اشرافیہ کا فرد نہیں تھا، بلکہ یہ ورکنگ کلاس تھی جس نے اس پارٹی کو بنایا۔

جب ورکنگ کلاس میں اتحاد پیدا ہو گیا تو انہوں نے تعلیم بالغاں کے لیے بھی ادارے کھولے چونکہ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی تھی، جو بچپن سے فیکٹریوں میں کام کرتے تھے اور جنہیں سکول جانے کے مواقع نہیں ملے تھے۔

لہٰذا اس مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کتابیں نہ صرف ورکنگ کلاس بلکہ معاشرے کے عام لوگوں کے ذہن کو بھی بدلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ اور ریاستیں عام لوگوں کے لیے تعلیم کے حصول پر پابندیاں عائد کرتی ہیں اور سنسر شپ کے ذریعے کتابوں کی اشاعت کو روکتی ہیں۔

اس مقصد کے لیے بعض ریاستیں باقاعدہ قانون بناتی ہیں، جیسا شمالی امریکا میں خانہ جنگی سے پہلے جنوب کی ریاستوں میں افریقی غلاموں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ایک قانونی جرم تھا۔

اس کتاب کے مطالعے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ورکنگ کلاس کو یا عوام کو تعلیم کے حصول کے لیے خود اپنے پر انحصار کرنا ہو گا۔ ورکنگ کلاس کے لوگوں نے جو اپنی سوانح لکھی ہیں۔ ان میں انہوں نے ناصرف اپنے ذاتی حالات بلکہ اپنے وقت کے سماجی نظریات کو بھی بیان کیا ہے۔

اس کی اہمیت اس وجہ سے زیادہ رہی کیونکہ اشرافیہ کے مورخین کے برعکس ورکنگ کلاس کے لوگ خود اپنی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اس لیے ان دونوں تاریخ کے بیان میں فرق پایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ورکنگ کلاس نے تعلیم کی وجہ سے اپنے سیاسی حقوق حاصل کیے اور عدم مساوات کی تفرق کو کم کیا۔ انتخابات میں حصہ لے کر ریاست کے کاموں میں شرکت کی اور پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے اپنے حقوق کی حفاظت کی۔

ورکنگ کلاس کے بہت سے لوگ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد ریاست کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائض رہے۔ مذہبی طور پر بھی یہ تبدیلی آئی کہ جب انہوں نے بائبل کو خود سے پڑھنا شروع کیا تو چرچ اور راہب کی زیادہ ضرورت نہیں رہی، بلکہ ایسے افراد بھی تھے کہ جب پادری واعظ دے رہا ہوتا تھا اور بائبل کو کوٹ کرتا تھا تو لوگ فوراً اپنی بائلب سے اس کا موازنہ کرتے تھے کہ اس نے کہاں تک صحیح کیا ہے۔

 یہ تعلیم ہی کا نتیجہ تھا کہ ورکنگ کلاس نے اپنے دانشور پیدا کیے تاکہ وہ اشرافیہ کے محتاج نہ ہوں اور اپنی رہنمائی خود کر سکیں۔ اس لحاظ سے برطانیہ کی ورکنگ کلاس یورپ کے دوسرے ملکوں سے مختلف رہی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں