آئیے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ پروفیسر نوتن لال کون ہیں۔ علاقہ ہے گھوٹکی کا اور سال ہے 2019 کا، تاریخ ستمبر کی چودہ ہے اور عمر بھی بچے کی چودہ ہے۔ یہ غبی بچہ دراصل سبق میں رہ گیا ہے۔ پروفیسر نوتن لال تنبیہ کی خاطر اس کے کان اینٹتے ہیں۔ بچہ گھر پہنچ کر ابا کو بتاتا ہے، پروفیسر نوتن لال ہمارے مذہب کے بارے میں پتہ نہیں کیا کچھ کہتے رہتے ہیں۔ آج بھی کچھ کہہ دیا ہے۔ کیا کہا ہے یہ مجھے بھی نہیں پتہ، کچھ کہا ہے یہ مجھے بالکل پتہ ہے۔ یہ سن کر ابا کا عشق گرمی کھا گیا۔ عشق کا تقاضا یہ ہے کہ بچہ کتنا ہی نابالغ اور کند ذہن ہو، اگر کسی غیر مسلم پر الزام لگا رہا ہے تو یقین کرنے میں لمحہ بھر کی دیر بھی گوارا نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بچے کی شاید زندگی کی پہلی بات تھی جس پر ابا نے فورا سے پیشتر بھروسہ کرلیا۔
ابا داڑھ کے نیچے زہریلی گولی رکھ کے بازار پہنچ گیا۔ بچے کے کہے کو یہاں وہاں آگ کی طرح پھیلا دیا۔ صحافت کے نام پر کام کی تلاش میں جوتیاں چٹخانے والے ایک 'یوٹیوبیے‘ نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ الزام تھا اور ہندو پر تھا، اس لیے تحقیق کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اسٹیٹ ایجنسیوں میں بیٹھ کر سارا دن ٹک ٹاک دیکھنے والے بے روزگار لمڈے اور زیر تعمیر مسجدوں کے ٹیوشن مارکہ قاری صاحبان پلک جھپکتے میں عشق آزمانے نکل آئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہندو کاروباریوں کی دکانوں نے آگ پکڑ لی۔ مقامی مندر میں جی بھر کے توڑ پھوڑ کرنے کے بعد بلوائیوں نے نوتن لال کو پولیس کے حوالے کرکے عدالت کے آگے بستر لگا لیا۔ مطالبہ کردیا ’عدالت قانون کے مطابق ملزم کو سزا دے ورنہ حالات کے ذمہ دار ہم نہیں ہوں گے'
یہاں قانون سے مراد بلوائیوں کا اپنا فیصلہ تھا جو وہ بھرے بازار میں سنا چکے تھے۔ اب عدالت کو دراصل وہ یہ کہہ رہے تھے کہ آپ نے صرف ہمارے سنائے ہوئے فیصلے کی توثیق کرنی ہے۔ چنانچہ عدالت نے رسمی کارروائی کرتے ہوئے ایک جونئیر پولیس افسر کو تحقیق کا معاملہ سونپ دیا۔ افسر کا کام چونکہ بلوائی آسان کرچکے تھے، چنانچہ اس نے روشنی کی رفتار سے تحقیق مکمل کرکے عدالت کے حوالے کردی اور عدالت نے بھی فوری انصاف کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمر قید کی سزا سنادی۔
اب مقدمہ کیا ہے، وہ بھی جان لیجیے۔ زیادہ لمبی چوڑی کہانی نہیں ہے، بس ٹویٹ جیسی ایک ون لائنر میں فرمایا گیا ہے، پروفیسر نوتن لال کلاس میں آئے، پیغمبر کی شان میں گستاخی کی، چلے گئے۔
اس پر ریمارکس فائر کرتے ہوئے پوچھا جا سکتا تھا کہ کیا نوتن لال نے اس دن ناشتے میں چائے کی جگہ سرف پی لیا تھا جو سر جھاڑ منہ پھاڑ گھر سے نکلے، سیدھا مسلم اکثریت والی کلاس میں گئے، پیغمبر کو یاد کیا، موت کو پیچھے لگایا اور نکل گئے؟ یہ یقینا پوچھا جاسکتا تھا مگر اندیشہ یہ تھا کہ سوال کا جواب اگر عدالت کے باہر لگی بے روزگاروں کی خیمہ بستی سے آگیا تو کیا ہوگا۔
جو ہوا جیسے ہوا، معاملہ اب یہ ہے کہ پروفیسر نوتن لال جیل میں ہیں۔ سلاخوں کے پیچھے اذیتوں میں لپٹی ہوئی تنہائی میں نوتن لال کیا سوچتے ہوں گے۔ سوچتے تو بہت کچھ ہوں گے۔ بہت کچھ سوچنے کے بعد وہ وہ اکثر یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ مجھے پڑھنے کی کیا ضرورت تھی۔ چلو غلطی ہوگئی پڑھ لیا، پھر یہیں اس غلطی کو سدھارا بھی تو جا سکتا تھا۔ پڑھ لیا تو اب آگے پڑھانے کی کیا ضرورت تھی۔
مجھ میں جاننے کا جنون کیوں تھا۔ جاننے کا جنون اگر تھا ہی، تو پھر یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل نے اپنی وزارت سے استعفی کیوں دے دیا تھا۔ استعفی تو چلو کوئی بھی دے دیتا ہے، مگر انہوں نے پاکستان ہی کیوں چھوڑ دیا تھا۔ وہ پاکستان، جہاں وہ یہ خواب لے کر بنگال سے آئے تھے کہ یہاں لوگ شودروں کو اپنے برابر میں بٹھائیں گے۔ بابا صاحب امبیدکر نے ہزار منع کیا، مگر وہ پھر بھی سب کچھ تیاگ کر یہاں چلے آئے۔ پھر یہاں سے اپنا منصب، شہریت، پروٹوکول اور خواب سمیٹ کر وہ کلکتہ چلے گئے اور مضافاتی جھوگیوں میں زندگی گزارنے لگے۔ آخر کیوں؟
اس کیوں کا جواب میں نے کیوں نہیں جانا۔ چلو میں نے نہیں جانا، کسی اور نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ کسی نے بندھو پادھیائے کا تحقیقی مقالہ مجھے کیوں نہیں دکھایا۔ ٹھیک ہے یہ مقالہ پاکستان میں نہیں ملتا ہوگا، لیکن کیا پاکستان میں جوگندر ناتھ منڈل کے استعفے کا متن بھی نہیں ملتا؟
کوئی تو ہوتا، جو ڈاکٹر جامی چانڈیو کے کتب خانے سے جوگیندر ناتھ کے استعفے کا متن چرا کر لا تا۔ مجھے دکھاتا، جوگندر ناتھ کے استعفے میں لپٹا ہوا احساس مجھ میں اتارتا، مجھے جھنجھوڑ کر کہتا، سائیں یہ پڑھو اور ہوش کے ناخن لو، پاکستان میں علم کے لیے تب جگہ نہیں تھی، اب کیسے بن پائے گی۔ علم کے دروازے تو یہاں مسلمانوں پر بند کر دیے گئے ہیں، تم ہندو ہوکر یہ راستہ کیسے چن سکتے ہو۔
چھوڑو علم کا یہ بے آسرا و بے سہارا کاروبار۔ پھینک دو یہ کتابیں اُس دریائے سندھ میں جو ہمارے اختیار سے باہر نکلتا جا رہا ہے۔ جانے دو اس نئی نسل کو ریاست کے بتائے ہوئے اُس راستے پر جس کی کوئی سمت نہیں ہے۔ آو پاکستان کے جھنڈے والا بیج بے موسم اپنے سینے پر لگاتے ہیں اور ہندوستان کے خلاف بلا وجہ احتجاج کرتے ہیں۔ یہ دیکھو، ملک کے سب سے بڑے اخبار میں سرکاری اسامیوں کا اشتہار شائع ہوا ہے۔ اس میں حاجت خانوں کا گند صاف کرنے والی نوکریاں غیر مسلموں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ آو، ان کا گند صاف کرتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔