فن لينڈ کے محققين نے پتہ چلايا ہے کہ کتے مہارت کے ساتھ سونگھ کر کورونا وائرس کا پتا چلا ليتے ہيں اور اس عمل ميں زيادہ وقت نہيں لگتا۔ سوال يہ ہے کہ انہيں عالمی وبا کے خلاف جاری کوششوں کا حصہ کيوں نہيں بنايا جا رہا۔
اشتہار
فن لينڈ کے دارالحکومت ہلسنکی کے ہوائی اڈے پر ايک چھوٹے سے کيبن ميں کوسی نامی کتا اپنے پسنديدہ کھانے کے بدلے فوراً يہ پتا لگا ليتا ہے کہ کسی فرد ميں کورونا وائرس ہے يا نہيں۔ اگر کوئی اور اس کے ساتھی کتوں پر چھوڑا جائے، تو يہ چند ہی منٹوں ميں تمام ايسے مسافروں کی شناخت کر ليں گے، جن ميں کورونا وائرس ہو۔ کتوں کے سونگھ کر وائرس کا پتا لگانے کے طريقہ کار سے مسافروں کو اس جسمانی الجھن سے بھی نہيں گزرنا پڑے گا، جس سے انہيں موجودہ پی سی آر نامی ٹيسٹ کے دوران گزرنا پڑتا ہے۔
کتا کورونا وائرس کا کيسے پتا لگاتا ہے؟
اگر کسی شخص کے ہاتھ يا پھر اس کی گردن پر ايک کپڑا لگايا جائے اور وہ شخص گزشتہ پانچ دنوں کے اندر کسی ايسے شخص کے ساتھ تعلق ميں آيا ہو، جو کورونا وائرس کا شکار ہو، تو کتا سونگھ کر اس کا پتہ لگا ليتا ہے۔ خواہ اس شخص ميں اس وبائی مرض کی علامات ہوں يا نہيں۔
جانوروں پر تحقيق کرنے والی يونيورسٹی آف ہلسنکی کی محققہ انا ہيم يورکمان نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ''ايک کتا کئی زندگياں بچا سکتا ہے۔‘‘ يورکمان کے مطابق ان کی تحقيق ميں کتوں نے وائرس کی ايک سو فيصد درست نشاندہی کی۔ ان ہی کی تجويز پر ہلسنکی ايئر پورٹ پر 'کوسی‘ کو وائرس کی تشخيص کے ليے استعمال کيا گيا۔ کوسی کو اس سے قبل ديگر بيماريوں اور طبی صورتحال کی تشخيص کے ليے استعمال کيا جاتا رہا ہے۔ انا ہيم يورکمان کے مطابق کوسی کو يہ بات سمجھنے ميں صرف سات منٹ لگے کے اسے کورونا کی نشاندہی کے سلسلے ميں کيا تلاش کرنا ہے۔
اس پيش رفت کا ايک دلچسپ پہلو يہ ہے کہ کوسی آٹھ برس قبل اسپين ميں جانوروں کو تحفظ فراہم کرنے والے ايک شيلٹر ميں تھا۔ انجيکشن کے ذريعے اس کی زندگی ختم کرنے کا فيصلہ بھی کيا جا چکا تھا جب سوزانا پاوويليانن نے اسے بچايا۔ پاوويليانن ايک ايسی فاونڈيشن کی ايگزيکٹو ڈائريکٹر ہيں، جو جانوروں کی سونگھنے کی صلاحيت کو بروئے کار لاتے ہوئے بيماريوں کی تشخيص کا کام کرتی ہے۔
کتوں کو کورونا وائرس کی تشخيص کے ليے وسيع پيمانے پر استعمال کرنے ميں ايک بڑی رکاوٹ فنڈنگ کی قلت ہے۔ ونٹا کے ڈپٹی ميئر ٹيمو ارنکيوٹو کے مطابق ہوائی اڈے پر ٹيسٹنگ پر تقريباً ايک ملين يورو ماہانہ کے اخراجات آتے ہيں، جو موسم سرما ميں تين ملين تک جا سکتے ہيں۔ ''کتے اس کے مقابلے ميں کافی سستے پڑيں گے،‘‘ ارنکيوٹو نے کہا۔
تاہم ہلسنکی حکومت فی الحال اس منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے ميں زيادہ دلچسپی نہيں دکھا رہی۔
کتوں کی مدد سے کورونا کی شناخت پر صرف فن لينڈ ميں کام نہيں ہو رہا بلکہ جرمنی ميں بھی يہ کام جاری ہے ليکن فی الحال کتوں کو باقاعدہ استعمال نہيں کيا گيا ہے۔
جانوروں کی سننے کی غیرمعمولی صلاحتیں
ارتقا کے سفر میں انسانوں نے اپنی سماعت کی حسیات کھو دیں۔ ہم ہاتھیوں کی طرح نچلے تعدد کی آواز نہیں سن سکتے اور چمگادڑوں کی طرح کی اونچی فریکوئنسی کی سماعت سے عاری ہوتے ہیں مگر ہم نے اپنی سماعت کو بہتر بنانا ضرور سیکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
خرگوش اور کانوں کا گھماؤ
خرگوش اپنے کانوں کو 270 درجے تک گھما کر سننے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ کانوں کی حرکت اسے شکار بننے سے بچاتی ہے، مگر خرگوش کے کان رویے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کھڑے کان بتاتے ہیں کہ وہ توجہ سے سن رہے ہیں اور جب ایک کان کھڑا ہو اور ایک بیٹھا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ خرگوش توجہ دیے بغیر سن رہا ہے۔ دونوں کان پشت پر جڑی حالت میں گرے ہوں، تو سکون کی علامت ہے۔ اسی حالت میں علیحدہ کان خوف کا اشارہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
بلی اور کتا نہایت متوجہ ہیں
کتے انسان سے زیادہ بلند تعدد کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ اسی لیے آپ کا کتا اس وقت بھی ردعمل دکھا سکتا ہے، جب آپ کو وہاں کچھ نظر نہ آئے۔ کتے اپنے مالک اور اجنبیوں کے قدموں کی چاپ میں فرق تک کر سکتے ہیں۔ بلیاں سماعت میں اس سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ کتوں کے پاس کانوں کے 18 پٹھے ہوتے ہیں جب کہ بلیوں میں یہ تعداد 30 ہے۔ بلیاں اپنے کانوں کو 180 درجے گھما بھی سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Faber
چمگادڑوں کا سننے کے لیے الٹراسانک موجوں کا استعمال
چمگادڑ گمک کے ذریعے رات کے دوران پرواز کا راستہ طے کرتی ہیں۔ یہ اپنے منہ سے الٹراسونک یا بالائے صوت موجیں خارج کرتی ہیں، جو پلٹ کر ان تک آتی ہیں۔ اس ذریعے سے چمگادڑ آواز کی موجوں سے کسی شے کے حجم اور مقام کا تعین کرتی ہیں اور گھپ اندھیرے میں بھی خوراک تلاش کر لیتی ہیں۔ چمگادڑوں کے پاس کانوں کے 20 پٹھے ہوتے ہیں، جن کے ذریعے یہ گمک کو سننے کے لیے اپنے کانوں کی جہت تبدیل کر لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Mary Evans Picture Library/J. Daniel
عالم حیوانات کا بہترین سامع مگر کان نہیں ہیں
عالم حیوانات میں سب سے بہترین سماعت ویکس موتھ ہے، جسے ارتقا نے چمگادڑوں سے بچنا سکھا دیا ہے۔ ان کے کان نہیں ہیں، مگر ان کی سننے کی صلاحیت انتہائی حساس ہے۔ یہ انسانوں کے مقابلے میں ایک سو پچاس گنا بہتر سن سکتے ہیں جب کہ چمگادڑوں کے مقابلے میں 100 ہرٹز زیادہ تعدد کی آوازیں بھی سن سکتے ہیں۔
بھنورے، جھینگر اور کیڑے اپنے شکاریوں کی جانچ کے لیے الٹراسونک موجوں کو سماعت کرتے ہیں۔ شکاریوں سے فاصلہ بنانے کے لیے یہ آڑا ترچھا یا دائروں میں اڑنے کا ہنر استعمال کرتے ہیں۔ بعض جھینگر اور بھنورے مخصوص آواز پیدا کر کے اپنے شکاری کو ڈرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Schultz
وہیل، چلتی پھرتی آبدوزیں
آب دوزوں کے سفر کے لیے وہی تکنیک استعمال کی جاتی ہے، جو چمگادڑ یا وہیل مچھلیاں گھپ اندھیرے میں سفر کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اندھیرے میں وہیل مچھلیاں آواز کی موجیں پیدا کر کے اور گمک سن کے اپنی خوراک بھی تلاش کرتی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہیل مچھلیاں آواز کے ذریعے اپنے آس پاس کے ماحول کا سہہ جہتی خاکہ جان لیتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Poelzer
ڈولفن جبڑوں سے سنتی ہیں
ڈولفن کے کان ہوتے ہیں، مگر وہ سمندر میں سفر کے لیے چمگادڑوں کی طرز کا نظام استعمال کرتی ہیں۔ ان کی جبیں سے صوتی لہریں نکلتی ہیں جب کہ پلٹ کر آنے والی ان لہروں کو ڈولفن کے دانت اور جبڑے وصول کرتے ہیں۔ سننے کے لیے کبھی کبھی کان درکار نہیں ہوتے۔
تصویر: picture-alliance/WILDLIFE/W. Peolzer
ہاتھی بادلوں کی گڑگڑاہٹ محسوس کر سکتے ہیں
اپنے بڑے بڑے کانوں کے ذریعے ہاتھی بارش سے قبل جمع ہونے والے بادلوں کی آواز تک محسوس کر لیتے ہیں۔ ہاتھی انفرا صوتی موجوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پیروں کی حرکت کی وجہ سے زمین پر پیدا ہونے والی ارتعاش تک کو محسوس کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/M. Reichelt
الو جیسے فطرت کا نگران کیمرہ
الوؤں کے پاس فقط رات میں دیکھنے یا اپنے سر کو تین سو ساٹھ درجے گھمانے ہی کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ ان کی سماعت بھی غیرمعمولی ہوتی ہے۔ ان کے کان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اڑتے ہوئے یہ ایک کان سے اوپر سے آنے والے صوتی موجیں محسوس کر سکتے ہیں اور ایک کان سے نیچے سے آتی آوازیں۔ اس پر ان کی رات میں دیکھ لینے کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ ان کا شکار بچ نہیں سکتا۔
تصویر: DW
نابینا افراد چمگادڑوں کی طرح سننے کی مشق کر سکتے ہیں
بعض نابینا افراد گمک کو محسوس کر کے اپنے ماحول کو جانچ سکتے ہیں۔ بعض افراد اپنے منہ سے آواز نکال کر اس کی بازگشت سن لیتے ہیں جب کہ بعض دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فقط گمک سن کر اپنے ماحول کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں۔