کثیر الازدواجی خواتین کے ساتھ ناانصافی ہے، امام جامعہ الازہر
3 مارچ 2019
معروف مصری درسگاہ جامعہ الازہر کے بااثر گرینڈ امام شیخ احمد الطیب نے ایک سے زیادہ شادیوں کو خواتین اور بچوں کے ساتھ ’نانصافی‘ قرار دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. El-Mofty
اشتہار
مصر کی جامعہ الازہر کو دنیا کی قدیم ترین جامعہ قرار دیا جاتا ہے اور اس کے امام مسلمانوں میں بالعموم اور خاص طور پر سنی مسلمانوں میں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
الازہر کے موجودہ گرینڈ امام شیخ احمد الطیب نے کثیر الازدواجی کے بارے میں ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’کثیر الازدواجی اکثر خواتین اور بچوں کے لیے ناانصافی ہوتی ہے۔‘‘ اس حوالے سے انہوں نے مزید لکھا کہ ایک سے زائد شادیاں کرنا ’قرآن اور سنت پیغمبر سے متعلق کم علمی‘ کا نتیجہ ہے۔
جمعہ یکم مارچ کو انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں بھی ناظرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آپ میں سے جو سمجھتے ہیں کہ ایک سے زائد شادیاں کرنا چاہییں، وہ سب غلط ہیں۔‘‘ شیخ احمد الطیب نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان مردوں کو ایک سے زائد بیویاں رکھنے کے لیے ’انصاف کی شرط کی پر عمل کرنا لازمی ہے ۔۔۔ اگر انصاف نہیں ہے تو پھر ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
جامعہ الازہر کے گرینڈ امام کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر عرب ممالک کے صارفین میں شدید بحث شروع ہو گئی۔ کئی صارفین نے احمد الطیب کے بیان پر تنقید بھی کی جس کے بعد جامعہ الزہر نے ہفتہ دو مارچ کے روز وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ شیخ احمد الطیب نے اپنے بیان میں کثیر الازدواجی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔
جمعے کے روز ٹی وی پروگرام میں شیخ نے خواتین سے متعلق موضوعات پر بحث میں وسیع النظری کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ اپنی ٹویٹ میں شیخ الطیب نے کہا، ’’خواتین کی آبادی معاشرے کا نصف ہے۔ اگر ہم ان کا خیال نہیں کرتے تو یہ یوں ہے جیسے ہم ایک پاؤں پر چل رہے ہیں۔‘‘
مصر کی نیشنل کونسل برائے خواتین کی صدر مایا مرسی نے شیخ احمد الطیب کے بیان کو سراہا۔
ش ح / ا ب ا (اے ایف پی)
طلاق کیسے ہو سکتی ہے؟
مشرقی ممالک کی نسبت مغربی ممالک میں طلاق کی شرح نسبتاﹰ زیادہ ہے۔ جرمنی میں ایک تہائی تو امریکا میں قریب نصف شادیوں کا انجام طلاق پر ہوتا ہے۔ دنیا کے بعض علاقوں میں طلاق کے لیے بہت عجیب قوانین ہیں۔ تفصیلات یہاں دیکھیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
شادی ٹوٹنے کی وجہ بننے والے کو جرمانہ
اس قانون میں شوہر یا بیوی کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو کوئی شادی ٹوٹنے کا ذمہ دار ہونے پر بھاری جرمانہ ہو سکتا ہے۔ نیو میکسیکو اور مِسِسپی سمیت امریکا کی سات ریاستوں میں نافذ اس قانون میں متاثرہ پارٹی کو حقائق کے ساتھ یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ فلاں شخص کی وجہ سے اس کی شادی ٹوٹی۔
تصویر: Fotolia/detailblick
شرط جیتنے کے لیے شادی
شادی یوں تو کوئی ہنسی مذاق یا کھیل نہیں ہے لیکن امریکی ریاست ڈیلاویئر میں اگر آپ ایسا کر بیٹھیں تو قانون آپ کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی شخص ’’مذاق‘‘ یا ’’جوش‘‘ میں آ کر شادی کر بیٹھے تو وہ طلاق کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ ایسے کئی کیسز ہیں جن میں لوگوں نے شراب کے نشے میں دوستوں کے ساتھ بازی لگائی اور مذاق مذاق میں شادی کر لی جسے بعد میں منسوخ کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارٹنر کا ذہنی عدم توازن
نیویارک میں اگر آپ ثابت کر سکیں کہ آپ پارٹنر دماغی طور پر عدم توازن کا شکار ہے تو اس بنیاد پر آپ طلاق حاصل کر سکتے ہیں۔ شرط ہے کہ شادی کے دوران کم سے پانچ سالوں تک آپ کے پارٹنر کی ذہنی حالت خراب رہی ہو۔
تصویر: imago/Steinach
کسی اور سے شادی
آسٹریلیا کے قدیم مقامی باشندوں میں خواتین کے پاس طلاق حاصل کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی اور سے شادی کر لے۔ اس طرح پہلی شادی منسوخ ہو جاتی ہے۔ یہ طریقہ آسان تو ہے، لیکن ظاہر ہے اگلی شادی کا ٹوٹنا بھی اتنا ہی آسان ہوگا۔
تصویر: Colourbox
طلاق غیر قانونی
فلپائن میں مسلمانوں کے علاوہ باقی لوگوں کے لیے طلاق غیر قانونی ہے۔ اس کے علاوہ 98 فیصد کیتھولک عیسائی آبادی والے ملک مالٹا میں بھی طلاق غیر قانونی ہے۔ 1997ء سے پہلے تک بہت سے یورپی ممالک میں بھی یہی صورت حال تھی جو اب بدل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/CTK/Josef Horazny
دوری اختیار کرنے سے طلاق
جب اسکیمو لوگ طلاق کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو سب سے پہلے ایک دوسرے سے الگ رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح الگ رہنے کا مطلب ہی طلاق ہوتی ہے۔
تصویر: DVD-Anbieter Absolut Medien
طلاق کا جشن
نیویارک اور امریکا کے دوسرے بڑے شہروں میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو طلاق پارٹی منعقد کرتے ہیں۔ کئی بار انتہائی پرجوش اور بھڑکیلے انداز والی تو کبھی کبھار کافی پرسکون طلاق پارٹیاں بھی ہوتی ہیں۔ جن میں طلاق لینے والی عورت یا مرد اپنے دوستوں اور ساتھیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لاس ویگاس، لاس اینجلس اور نیو یارک جیسے شہر ایسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں۔