1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی: چھ پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق

16 مارچ 2019

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعے کے روز دو مساجد پر کیے گئے دہشت گردانہ حملوں کے انچاس ہلاک شدگان میں چھ پاکستانی بھی شامل ہیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم آرڈرن کے مطابق ان حملوں میں چالیس سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے کرائسٹ چرچ میں ہفتے کے روز مسلم برادری کے ارکان سے ملاقات بھی کیتصویر: picture-alliance/AP Photo/New Zealand Prime Minister Office

وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے ان دہشت گردانہ حملوں کے ایک روز بعد ہفتہ سولہ مارچ کو بتایا کہ ایک آسٹریلوی شہری کی طرف سے کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں نمازیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی صورت میں کیے جانے والے ان دہشت گردانہ حملوں میں 49 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے، جن میں سے متعدد کی حالت تشویشناک ہے۔ زخمیوں اور ہلاک شدگان میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔

ہفتے کی سہ پہر تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان ہلاک شدگان میں کئی ممالک کے مسلم شہری شامل ہیں، جن میں سے چھ کا تعلق پاکستان سے، چار کا اردن سے، چار کا مصر سے اور کم از کم ایک کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ ان کے علاوہ ہلاک شدگان میں مختلف ایشیائی ممالک کے مسلمان تارکین وطن بھی شامل ہیں۔

ہلاک ہونے والے چھ پاکستانی

نیوزی لینڈ کے حکام کے مطابق ان دہشت گردانہ حملوں میں چھ پاکستانی شہری مارے گئے، جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق چند پاکستانی ان حملوں کے بعد سے لاپتہ بھی ہیں۔

تصویر: Getty Images/AFP/L. Fievet

اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے نیوزی لینڈ کے حکام کی جاری کردہ ایک فہرست کی جو تفصیلات اپنی ایک ٹویٹ میں شائع کیں، ان کے مطابق کرائسٹ چرچ کی دونوں مساجد میں مارے جانے والے چھ پاکستانی شہریوں کے نام یہ ہیں: سہیل شاہد، سید جہاں داد علی، سید اریب احمد، محبوب ہارون، نعیم رشید اور نعیم رشید کا نابالغ بیٹا طلحہ نعیم۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق ان حملوں کے بعد کرائسٹ چرچ میں رہنے والے کم از کم تین پاکستانی شہری ابھی تک لاپتہ ہیں۔

’ایک پرامن اور مہربان معاشرے پر حملہ‘

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے ہفتے کے روز کہا کہ آسٹریلیا کے جس اٹھائیس سالہ شہری نے جمعے کی سہ پہر کرائسٹ چرچ کی النور اور لِن وُوڈ مساجد میں نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے کیے، اس نے دراصل اس ’’تنوع، مہربان رویوں اور ہمدردی پر حملہ کیا ہے، جن کی نمائندگی نیوزی لینڈ کرتا ہے۔‘‘

وزیر اعظم آرڈرن نے مزید کہا، ’’اس حملے کے ذمے دار آسٹریلوی شہری نے قانونی طور پر پانچ آتشیں ہتھیار خریدے تھے، جن میں وہ دو سیمی آٹومیٹک رائفلیں بھی شامل تھیں، جو ان حملوں میں استعمال کی گئیں۔‘‘

ساتھ ہی جیسنڈا آرڈرن نے ہفتے کی صبح میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا، ’’آج جب پورا ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے، ہم ان سوالوں کے جواب تلاش کر رہے ہیں، جن کو ان دہشت گردانہ حملوں نے جنم دیا ہے۔‘‘

گن کنٹرول قوانین میں ترامیم کی یقین دہانی

وزیر اعظم آرڈرن نے کہا، ’’ایک بات میں آپ کو یقین کے ساتھ ابھی بتا سکتی ہوں۔ اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں آتشیں ہتھیاروں سے متعلق قوانین میں ترامیم لائی جائیں گی۔‘‘ ان حملوں کے سلسلے میں نیوزی لینڈ کی پولیس نے کل جمعہ کے روز ہی چار مشتبہ ملزمان کو حراست میں لے لیا تھا، جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔

ان میں سے مرکزی ملزم 28 سالہ آسٹریلوی شہری برینٹن ٹیرنٹ کو آج ہفتے کو ایک عدالت میں پیش کر کے اس پر قتل کے الزام میں فرد جرم عائد کر دی گئی اور اسے مزید تفتیش کے لیے پانچ اپریل تک پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔ باقی تین مشتبہ افراد کے بارے میں پولیس نے ابھی تک کچھ نہیں بتایا۔

م م / ع ح / ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں