’کراچی افیئر‘ کرپشن کیس میں سابق فرانسیسی وزیر اعظم بری
5 مارچ 2021
فرانس کے سابق وزیر اعظم ایدوارد بالادور کے وکلاء کا کہنا ہے کہ ایک فرانسیسی عدالت نے ان کے موکل کو 'کراچی افیئر‘ کے نام سے مشہور مبینہ بدعنوانی کیس میں بری کردیا ہے۔
اشتہار
سابق فرانسیسی وزیر اعظم ایدوارد بالادور پر سن نوے کی دہائی میں صدارتی انتخابی مہم میں مالی مدد کے لیے اسلحے کے سودے میں رشوت لینے کا الزام تھا۔ فرانس کی لا کورٹ آف ری پبلک (سی جے آر) نے جمعرات کے روز انہیں اس کیس میں بری کردیا تاہم ان کے سابق وزیر دفاع کو معطل جیل کی سزا سنائی ہے۔
سابق وزیروں کے عہد میں مبینہ بدعنوانیوں کے الزامات کے مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالت نے چند دنوں قبل ہی سابق فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کو بدعنوانی کے الزام میں سزا سنائی تھی۔
اکیانوے سالہ بالادور پر سن 1995میں اپنی ناکام صدارتی انتخابی مہم کی فنڈنگ کے لیے ہتھیاروں کے سودوں میں غیر قانونی طور پر کمیشن لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ان کے سابق وزیر دفاع 78سالہ فرانسوا لیوٹارڈ کو اثاثوں کے ناجائز استعمال میں ملوث ہونے کے الزام میں دو برس کی معطل قید کی سزا اور ایک لاکھ یورو (تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر) جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔
یہ دونوں رہنما فیصلہ سنائے جانے کے وقت عدالت میں موجود نہیں تھے۔
الزامات کیا ہیں؟
ان دونوں رہنماؤں پرالزام ہے کہ انہوں نے سن 1993 سے سن 1995 کے درمیان پاکستان کو سمندری آبدوز اور سعودی عرب کو جنگی جہاز فروخت کرنے کے معاملے میں 'کارپوریٹ اثاثوں کا بے جا استعمال‘ کیا۔ اس وقت بالادور فرانسوا متراں کے دور صدارت کے آخری برسوں میں وزیراعظم تھے۔ ان دونوں رہنماؤں پر یہ الزامات سن 2017 میں عائد کیے گئے۔
اس سودے میں تیرہ ملین فرینک یعنی تقریباً 33 کروڑ امریکی ڈالر کی رشوت لی گئی تھی۔ خیال ہے کہ اس میں تقریباً دس ملین فرینک سن 1995 میں بالادور کی شیراک کے خلاف ناکام صدارتی مہم میں استعمال کیا گیا تھا۔
اشتہار
کراچی افیئر
بالادور اور لیوٹارڈ کے خلاف یہ الزامات 2002 میں کراچی میں ہونے والے بم دھماکے کی تحقیقات کے دوران سامنے آئے جس میں فرانسیسی انجینئروں کی ایک بس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ کیس بعد میں کراچی افیئر کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس حملے میں پندرہ افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں آبدوز کے معاہدے پر کام کرنے والے گیارہ انجینئر بھی شامل تھے۔
ابتدا میں اس حملے کو سرانجام دینے کا شبہ القاعدہ کے دہشت گرد نیٹ ورک پر تھا تاہم بعد میں جب تفتیش کاروں کا دھیان اس جانب گیا کہ کہیں یہ حملہ بالاور کو صدارتی انتخاب میں شکست دینے کے بعد جیکوئیس شیراک کی جانب سے اسلحے کے سودے میں کمیشن کی ادائیگی روکنے کے فیصلے پر انتقام لینے کے لیے تو نہیں کیا گیا، اس وقت سے اس کا شبہ آبدوزوں کے معاہدے پر منتقل ہوگیا۔
لیوٹارڈ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے ثالثیوں ں کا ایک 'مبہم نیٹ ورک‘ قائم کیا تھا جو پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ دفاعی سودوں پر کمیشن لیتا تھا اور پھر اس سے کچھ رقم غیرقانونی نقد کی منتقلی کے ذریعے واپس کی جاتی تھی۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
فرانس میں سیاسی بدعنوانی
بالادور کے خلاف عدالت کا یہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب گزشتہ پیر کو ہی سابق فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کو بدعنوانی کے کیس میں عدالت کی طرف سے تین برس کی قید کی سزا سنائے جانے پر فرانس حیرت زدہ رہ گیا تھا اور اس نے سیاسی بدعنوانی کے حوالے سے ایک نئی بحث چھیڑ دی تھی۔
سابق فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی پر الزام ہے کہ انہوں نے سن 2014 میں اپنے لیگل ایڈوائزر کے توسط سے ایک وکیل گلبیرٹ ازیبیخت سے تفتیشی راز حاصل کرنے کی کوشش کی۔ پیرس کی عدالت نے سارکوزی کے خلاف استغاثہ کے الزامات سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں سنگین قرار دیا اور سابق صدر کو غیر قانونی طور پر ایک سینیئر مجسٹریٹ سے معلومات حاصل کرنے کا مرتکب قرار دیا۔
عدالت نے سارکوزی کو بہر حال یہ رعایت دی ہے کہ وہ جیل کی مدت اپنے گھر پر گزارنے کی درخواست دے سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں الیکٹرانک بریسلیٹ پہننا ہو گا۔