’کراچی افیئر‘: سابق فرانسیسی وزیر اعظم کے خلاف مقدمہ شروع
18 جنوری 2021
سابق فرانسیسی وزیر اعظم ایدوارد بالادور کے خلاف سن نوے کی دہائی میں ہتھیاروں کے سودے میں رشوت کے الزامات پر مقدمہ منگل سے شروع ہورہا ہے۔ یہ کیس کراچی افیئر‘ کے نام سے مشہور ہے۔
اشتہار
اکیانوے سالہ بالادور کا نام فرانس کے ان اہم سیاست دانوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے جن پر کرپشن کے مقدمات چلائے گئے۔ ان میں سابق صدر نکولا سارکوزی اور ان کے پیش رو ژاک شیراک بھی شامل ہیں۔
سابق وزیر اعظم بالادور کے خلاف مقدمے کی کارروائی منگل کے روز پیرس میں کورٹ آف جسٹس میں شروع ہو گی۔ فرانسیسی وزراء کے خلاف بدعنوانی کے کیسز کی سماعت بالعموم اسی عدالت میں ہوتی ہے۔
بالادور کے ساتھ ان کے سابق وزیر دفاع فرانسوا لیوٹارڈ بھی 'کراچی افیئر‘ میں ملزم ہیں۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ علالت کی وجہ سے وہ عدالت میں حاضر ہوسکیں گے یا نہیں۔
الزامات کیا ہیں؟
ان دونوں رہنماؤں پرالزام ہے کہ انہوں نے سن 1993 سے سن 1995 کے درمیان پاکستان کو سمندری آبدوز اور سعودی عرب کو جنگی جہاز فروخت کرنے کے معاملے میں 'کارپوریٹ اثاثوں کا بے جا استعمال‘ کیا۔ اس وقت بالادور فرانسوا متراں کے دور صدارت کے آخری برسوں میں وزیراعظم تھے۔ ان دونوں رہنماؤں پر یہ الزامات سن 2017 میں عائد کیے گئے۔
اس سودے میں تیرہ ملین فرینک یعنی تقریباً 33 کروڑ امریکی ڈالر کی رشوت لی گئی تھی۔ خیال ہے کہ اس میں تقریباً دس ملین فرینک سن 1995 میں بالادور کی شیراک کے خلاف ناکام صدارتی مہم میں استعمال کیا گیا تھا۔
بالادور کو اس سوال کا بھی جواب دینا ہے کہ آیا انہوں نے اپنے جرائم کو چھپانے کی کوشش کی۔ تاہم انہوں نے کسی بھی طرح کی بدعنوانی سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ دس ملین فرینک کی آمدنی انتخابی ریلیوں کے دوران ٹی شرٹوں اور دیگر اشیاء کی فروخت سے ہوئی تھی۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
کراچی بم حملے سے تعلق
اس بدعنوانی کا کراچی میں سن 2002 میں ہونے والے ایک بڑے بم حملے کی تفتیش کے دوران پتہ چلا۔ اس حملے میں بس میں سوار فرانسیسی انجینئروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ حملے میں پندرہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں گیارہ آبدوز کے کانٹریکٹ پر کام کرنے والے انجینئر تھے۔
اس حملے کے لیے ابتدائی طور پر القاعدہ نیٹ ورک کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ تاہم بعد میں جانچ کا مرکز ہتھیاروں کے سودے کی طرف منتقل ہو گیا کیوں کہ تفتیش کاروں کو محسوس ہوا کہ صدارتی الیکشن میں بالادور کی شکست کے بعد ہتھیاروں کے سودے کے لیے کمیشن کی ادائیگی روک دینے کے صدر شیراک کے فیصلے کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر یہ حملہ کیا گیا تھا۔
اشتہار
فرانسیسی سیاست میں کرپشن
سابق وزیراعظم بالادور پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت کے وزیر خزانہ سارکوزی کی وزارت کو ہتھیاروں کے ’ناقص سودوں‘ کے لیے ریاستی ضمانت دینے کی ہدایت دی تھی کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر اس سودے میں رشوت لی تھی۔
تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ زیاد تقی الدین نامی ایک لبنانی۔ فرانسیسی بروکر نے بالادور کی انتخابی مہم میں رشوت کی رقم جمع کی تھی۔
پیرس کی ایک عدالت نے 'کراچی افیئر‘ کیس میں گزشتہ برس جب تقی الدین اور ایک دیگر بروکرعبدالرحمان العسیر کو پانچ برس قید کی سزا سنائی تو وہ لبنان فرار ہو گئے۔
اس عدالت نے ہی بالادور کی انتخابی مہم کے سابق منیجر نیز لیوٹارڈ کے مشیر کو بھی تین برس قید کی سزا سنائی۔ جبکہ سارکوزی کے ایک مشیراور سرکاری ملکیت والی ایک بحری کمپنی کے ایک سابق ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹر کو دو برس کی سزا دی گئی۔ ان سب نے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے۔
تقی الدین نے سن 2013 میں عدالت میں کہا تھا کہ انہوں نے بالادور کی مہم کی خفیہ مالی مدد کی تھی تاہم چھ برس بعد وہ اپنے دعوے سے مکر گئے۔ گزشتہ نومبر میں تقی الدین اپنے اس دعوے سے بھی مکر گئے تھے کہ انہوں نے لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر قذافی کی طرف سے سارکوزی کو ان کی کامیاب صدارتی مہم میں مدد کے لیے کے سارکوزی کے چیف آف اسٹاف کو سن 2006 اور سن 2007 میں مجموعی طورپرچھ ملین ڈالر دیے تھے۔
سارکوزی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں تاہم اس کیس میں تفتیش ابھی جاری ہے۔
ج ا / ش ج (اے ایف پی)
فرانسیسی شہر لِیوں کا سالانہ ’لائٹ فیسٹیول‘
ہر سال دسمبر میں فرانس کے مشہور شہر لِیوں میں ایک ’لائٹ فیسٹیول‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ شہر کی مختلف عمارات پر نظر آنے والی رنگ برنگی روشنیوں اور ڈیزائنوں کو ’لائٹ آرٹ‘ کا بہترین نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔