بھارت میں کراچی بیکری اور کراچی سويٹس پر سیاست اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ حکمران پارٹی بی جے پی سے وابستہ ايک رہنما نے پاکستانی شہر کراچی کو ايک نہ ايک دن بھارت کا حصہ بنانے کی بات کہہ ڈالی۔
اشتہار
بھارتی ریاست مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اور بھارتی جنتا پارٹی کے سرکردہ رہنما دیوندر فڈنویس نے یہ کہہ کر ایک اور تنازعہ کھڑا کر دیا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ایک دن کراچی بھارت کا حصہ ہوگا۔ چند روز قبل ہی دائیں بازو کے ایک سخت گیر رہنما نے ممبئی میں تاریخی اہمیت کی حامل دکان 'کراچی سوئٹس‘ اور 'کراچی بیکری‘ کا نام بدلنے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد دکان دار نے سائن بورڈ سے لفظ کراچی کو ڈھک دیا تھا۔
اس حوالے سے بعض صحافیوں نے سابق وزیر اعلیٰ دیونڈر فڈنویس سے سوال پوچھا کہ یہ دکانیں تو ساٹھ برس سے ہیں، پھر اب ان کے نام بدلنے کا جواز کیا ہے؟ اس پر سابق وزیر اعلیٰ نے کہا، ''ہم وہ لوگ ہیں جو 'اکھنڈ بھارت‘ (غیر منقسم ہندوستان) میں یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن کراچی بھی بھارت کا حصہ ہوگا۔‘‘
واضح رہے کہ سخت گیر ہندو نظريات کی حامل بھارتی تنظیم آر ایس ایس 'اکھنڈ بھارت‘ میں یقین رکھتی ہے اور اس کا کہنا ہےکہ ایک دن وہ بھارت کو متحدہ کر کے رہے گی۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نظرياتی طور پر آر ایس ایس سے متاثرہ ہے اور وزير اعظم نریندر مودی سمیت پارٹی کے بیشتر رہنما اسی کے زیر تربیت پراوان چڑھے ہیں۔
بی جے پی کے رہنما کے اس بیان پر جب ایک ریاستی وزیر نواب ملک سے سوال کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ جو فڈنویس نے کہا ہے اس کی وہ بہت پہلے سے حمایت کرتے رہے ہیں۔ ''ہم بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے انضمام کی بات کرتے رہے ہیں۔ اگر دیوار برلن گرائی جا سکتی ہے تو پھر بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ساتھ کیوں نہیں آ سکتے۔ اگر بی جے پی ان ممالک کو ملا کر ایک کرنا چاہتی ہے تو بلا شبہ ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔‘‘
ممبئی میں مقامی صحافی شاہد انصاری کہتے ہیں کہ یہ تمام بیان بازی سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعلی فڈنویس ابھی تک اپنی شکست ہضم نہیں کر پائے ہیں اور وہ ہر روز ایسا کچھ کہتے يا کرتے ہیں تاکہ وہ سرخیوں میں رہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ان کے پاس اب کوئی موضوع نہیں ہے۔ اس لیے میڈیا کی سرخیوں میں رہنے کے لیے وہ کوئی نہ کوئی متنازعہ بیان دیتے رہتے ہیں۔ کراچی سے متعلق ان کا یہ بیان بھی سیاست کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘
تنازعہ شروع کيسے ہوا؟
اس تنازعے کی ابتداء چند روز قبل اس وقت شروع ہوئی جب ممبئی میں سخت گیر دائیں بازوں کی علاقائی جماعت شیو سینا کے ایک رکن نے ممبئی میں 'کراچی سوئٹس‘ اور 'کراچی بیکری‘ نامی قدیم دکانوں کے نام بدلنے کی بات کہی تھی۔ شیو سینا کے رہنما نتن نندگاؤکر اور دکان کے مالک کے درمیان ہونے والی بات چیت کا ایک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں انہیں دکان دار سے 'کراچی‘ کا نام ہٹا کر کچھ مراٹھی زبان میں رکھنے کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
شیو سینا کے رہنما کہتے ہیں، ''ہم تمہیں کچھ وقت دے رہے ہیں، کراچی کو بدل کر کچھ مراٹھی میں رکھ لو۔ کراچی نام سے مطلب آپ پاکستان کے ہو۔ اس سے ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہمیں اس نام سے نفرت ہے، ممبئی میں ایسے ناموں کو نہیں رہنے دیا جائےگا، اسے آپ کو بدلنا ہوگا۔‘‘
اس بات چیت کے دوران دکان دار نے انہیں یہ سمجھانے کی بھی کوشش کی کہ اس کا پاکستان سے کچھ بھی لینا دینا نہیں اور دراصل ان کے باپ دادا کراچی سے بھارت ہجرت کر کے آئے تھے اور اسی مناسبت سے اس کا نام کراچی سوئیٹس رکھا تھا۔ لیکن نندگاؤکر نے ایک نہیں سنی اور 'کراچی سویٹس‘ کے مالک کو اپنی دکان کے سائن بورڈ کو اخباری کاغذ سے ڈھکنے پر مجور کر دیا۔
شیو سینا کی انتہا پسندی کا نشانہ بننے والے پاکستانی
ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا نہ صرف بھارتی مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے حوالے سے تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ وہ اپنا غصہ پاکستانی فن کاروں اور کھلاڑیوں پر بھی نکال رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki
غلام علی کا کنسرٹ
معروف غزل گائک غلام علی کو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بھارتی گلوکار جگجیت سنگھ کی چوتھی برسی کے موقع پر ممبئی میں ایک محفل موسیقی میں شرکت کرنا تھی۔ شیو سینا کے کارکنوں نے کنسرٹ کے منتظمین کو دھمکی دی کہ یہ پروگرام نہیں ہونا چاہیے۔ مجبوراً منتظمین کو یہ کنسرٹ منسوخ کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/G. Singh
خورشید قصوری کی کتاب کا اجراء
سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی بھی شیو سینا کے غصے کا نشانہ بنی، تاہم اسے منسوخ نہیں کیا گیا۔ بھارت کی اس دائیں بازو کی ہندو قوم پسند تنظیم، جو کہ ریاست مہارشٹر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حلیف بھی ہے، نے کتاب کے ناشر کے چہرے پر سیاہی پھینک کر یہ بتانے کی کوشش کی کہ بھارت میں پاکستانیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Solanki
ڈار پر وار
بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے شیو سینا کے حالیہ مظاہرے کے بعد اعلان کیا کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان کرکٹ سیریز میں امپائرنگ کرنے والے پاکستانی امپائر علیم ڈار سیریز میں مزید امپائرنگ نہیں کریں گے۔ علیم ڈار نے سیریز کے پہلے تین میچوں میں امپائرنگ کی تھی جب کہ پروگرام کے مطابق انہیں بقیہ دونوں میچوں میں بھی امپائرنگ کرنا تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
بھارتیوں کے پسندیدہ پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم
کٹر نظریات کی حامل ہندو قوم پرست سیاسی جماعت شیو سینا کی طرف سے دھمکیوں اور ممبئی میں واقع بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر دفتر پر دھاوا بول دینے کے بعد بھارت میں پاکستانیوں کے لیے سکیورٹی خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ وسیم اکرم کو بھارت اور جنوبی افریقہ کے مابین پوری سیریز کے لیے کمنٹری کے فرائض انجام دینا تھے، تاہم وہ اب پاکستان واپس لوٹ جائیں گے۔
تصویر: AP
شعیب اختر بھی
وسیم اکرم کے ساتھ شعیب اختر کو بھی سیریز کے لیے ممبئی میں کمنٹری کرنا تھی۔ راولپنڈی ایکسپریس کہلائے جانے والے اس سابق پاکستانی فاسٹ بولر کا بھی اب ممبئی میں ٹھہرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: AP
کرکٹ ڈپلومیسی انتہا پسندی کا شکار
پاکستان اور بھارت کے کرکٹ بورڈز نے گزشتہ برس ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے تحت دونوں ممالک کو اگلے آٹھ برسوں میں چھ سیریز کھیلنا ہیں۔ تاہم جب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری انوراگ ٹھاکر اور آئی سی سی کے صدر شری نواسن سے ملاقات کے لیے بھارت گئے تو شیو سینا کے کارکنوں نے بھارتی کرکٹ بورڈ کے دفتر پر حملہ کر دیا۔
تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images
ماہرہ خان اور فواد خان جیسے فنکار بھی
پاکستانی اداکار فواد خان (تصویر میں ان کے ساتھ بھارتی اداکارہ سونم کپور کھڑی ہیں) گزشتہ برس فلم ’خوب صورت‘ کے ذریعے بالی وڈ میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان فلم ’رئیس‘ میں معروف بھارتی اداکار شاہ رخ خان کے ساتھ جلوہ افروز ہو رہی ہیں۔ یہ فلم اگلے برس عید کے موقع پر ریلیز کی جائے گی۔ شیو سینا نے دھمکی دی ہے کہ وہ مہاراشٹر میں ماہرہ اور فواد کی فلموں کو ریلیز نہیں ہونے دے گی۔
تصویر: STRDEL/AFP/Getty Images
7 تصاویر1 | 7
شیوسینا کی وضاحت
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی حلقوں کی جانب سے اس واقعے پر سخت نکتہ چینی کی گئی، جس کے بعد شیو سینا نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا کہ یہ پارٹی کا موقف نہیں۔ پارٹی کے ترجمان سنجے راؤت نے کہا، ''کراچی بیکری اور کراچی سویٹس ممبئی میں گزشتہ ساٹھ برسوں سے ہیں۔ ان کا پاکستان سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ ان کے نام تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی کوئی سمجھ داری کی بات نہیں ہے۔ نام بدلنے کا مطالبہ شیو سینا کا سرکاری مطالبہ نہیں ہے۔‘‘
اشتہار
بھارت ميں 'کراچی بیکری‘ اور 'کراچی سویٹس‘ کی تاريخ
جنوبی اور مغربی بھارت میں 'کراچی بیکری‘ اور 'کراچی سویٹس‘ ایک معروف برانڈ ہے، جس کی مختلف بڑے شہروں میں دکانیں ہیں۔ دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعت بی جی پی اور اس کی حامی تنظیمیں اکثر مسلم ناموں کے مقامات یا پھر شہروں کے نام تبدیل کرنے کی بات کرتے ہيں۔
ایسی تنظیمیں کراچی بیکری کے خلاف بھی وقتاً فوقتاً آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ گزشتہ برس کشمیر ميں پلوامہ حملے کے بعد بھی جنوبی شہر بنگلور میں کراچی بیکری کے خلاف زبردست ہنگامہ کھڑا ہو گيا تھا اور لوگوں نے اس کا نام تبدیل کرانے کے لیے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا۔
بھارت میں کراچی بیکری کی بنیاد سن 1953 میں رکھی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد کراچی کے ایک سندھی ہندو خاندان کے چند ارکان بھارت ہجرت کر گئے تھے اور انہوں نے ہی بھارت کے جنوبی شہر حیدر آباد میں اس نام کی دکان پہلی بار سن 1953 میں کھولی تھی۔ حیدر آباد میں کراچی بیکری کی دکانیں آج بھی انتہائی مقبول ہیں۔ بہت سی دکانوں کے مالک ہندو ہیں اور ممبئی میں جس دکان کو نشانہ بنایا گيا، اس کے مالک بھی ہندو ہی ہیں۔
بھارت میں ایک طبقہ سخت گیر ہندو تنظیموں کے اس مطالبے سے متفق نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جس طرح بھارت میں کراچی بیکری، پنڈی دربار یا پھر لاہوری پکوان معروف ہیں تو پاکستان کے شہر حیدرآباد میں بھی 'بمبئی بیکری‘ ہے۔ سوشل میڈیا پر بحث کے دوران اکثر لوگوں نے شیو سینا کے اس موقف کی مخالفت کی ہے۔
دہلی کے فسادات میں بچ جانے والے افراد اب بھی خوف زدہ
بھارتی دارالحکومت میں رواں برس فروری میں پُرتشدد ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔ اِن فسادات میں انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔
تصویر: DW/S. Ghosh
عارضی سکون
نئی دہلی کے ایک مقام عیدگاہ میں انتظامیہ نے ایک بڑا عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔ اِسی کیمپ میں کھلے آسمان تلے ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ ایسا اِمکان ہے کہ بے گھر ہونے والے افراد رواں برس عید الفطر کی نماز بھی یہیں ادا کریں گے۔ اِس کیمپ میں قریب ایک ہزار لوگ عارضی پناہ گاہوں میں ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
زخم ابھی تازہ ہیں
ایسا نہیں لگتا کہ فسادات میں جانی و مالی نقصان برداشت کرنے والے افراد اپنے غم کو بھول پائیں گے۔ کیمپوں میں رہنے والے اِنسانوں کو خوف کی صورتِ حال اور اپنے دُکھ درد سے نجات بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ دہلی پولیس کے مطابق فسادات میں ترپن افراد ہلاک ہِوئے تھے، جن میں بیشتر مسلمان تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain
خواتین کی سلامتی کا معاملہ
عید گاہ کا کیمپ دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حصے میں مرد اور دوسرے حصے میں خواتین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ اِس تقسیم کی وجہ خواتین کا تحفظ ہے۔ کیمپ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ فسادات کے صدمے سے شاید ہی نہیں نکل سکیں گے۔
تصویر: DW/S. Ghosh
بچے مختلف مستقبل کو دیکھتے ہوئے
فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے بچے شدید خوف کی حالت میں ہیں۔ اِن فسادات کے دوران کئی اسکولوں کو بھی آگ لگائی گئی تھی۔ کیمپ میں بعض بچے اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اُن کے ذہن خوف کی لپیٹ میں ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
اِمدادی عمل جاری
کیمپ میں مقیم افراد کو انتظامی اِداروں اور غیر حکومتی تنظیموں کی جانب سے قانونی اور مختلف معاملات بشمول صحت کی اِمداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کیمپ کے مکینوں کی عمومی صحت چیک اپ کرنے کے علاوہ اُنہیں ادویات بھی فراہم کرنے کا سِلسِلہ جاری رکھے ہُوئے ہیں۔
تصویر: DW/A. Ansari
اُمید ابھی زندہ ہے
تمام تر جسمانی تکالیف اور ذہنی صدمات کے باوجود کیمپ کے رہائشی یہ امید رکھتے ہیں کہ اچھ دن لوٹیں گے۔ وہ پھر سے اپنے پرانے علاقوں میں واپس جا کر دوست احباب کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں گے۔