1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: اے ایس ایف کیمپ پر حملہ ناکام

رفعت سعید/کراچی10 جون 2014

سکیورٹی اداروں کی وضاحتیں اور حکومت کے دعووں کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ دہشت گردوں نے آج ایک بار پھر کراچی ایئر پورٹ کے عقب میں واقع اے ایس ایف کی ٹرینگ آکیڈمی پر تازہ حملہ کیا۔

تصویر: Reuters

کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو اے ایس ایف اہلکاروں اور سول ایوی ایشن کے ملازمین سمیت 21 افراد جان سے گئے اور چھبیس افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ حملہ کرنے والے دس دہشت گرد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن سات گھنٹے تک جاری رہا۔ جس کے بعد جناح ٹرمینل کو کلئیر کردیا گیا اور فلائٹ آپریشن بھی دوبارہ شروع ہو گیا۔

اس دوران سات افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی گمشدگی کا رونا روتے رہے، یہ خدشہ بلآخر درست ثابت ہوا اور رات ہوتے ہی یہ بات منظرعام پر آگئی کہ کارگو شیڈ میں قائم کولڈ اسٹوریج میں موجود سات افراد مدد کے طلبگار ہیں۔ اندر پھنسے ان افراد کے لواحقین نے ڈوچے ویلے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لواحقین حملے کے بعد سے گمشدہ ہیں اور حکام میں سے کوئی بھی ان کی بات پر کان نہیں دھر رہا۔ میڈیا کے شور شرابے کے باوجود ریسکیو کی کارروائی وفاق اور صوبے کی لڑائی کی نظر رہی صوبائی حکومت کے نمائندے ٹی وی چینلز پر بیانات داغتے رہے لیکن سات افراد کو نکالنے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ انہیں سیاست سے کوئی سروکار نہیں ۔ ایک لاپتہ ملازم کی بوڑھی ماں روتی ہوئی بولی کہ ’مجھے صرف اپنا بیٹا واپس چاہیے‘- مگر اس عورت اور اسکے جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کی آہ و بکا پر کان دھرنے میں اتنی دیر کی گئی کہ ان کے پیاروں کو زندہ واپس نہ لایا جاسکا اور جب ریسکیو آپریشن شروع ہوا تو اندر پھنسے لوگ جان سے جاچکے تھے اور بلاآخر سات افراد کی سوختہ لاشوں کو کارگو شیڈ میں جلنے والے سامان کی راکھ سے نکالا گیا۔

سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک بھی اس سانحہ پر جناح ہسپتال پہنچےتصویر: Reuters

اس افسوسناک واقعے کے بعد متاثرہ خاندانوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ورثا کا کہنا تھا کہ اس قتل کی ذمہ دار حکومت سندھ ہے۔ تمام افراد کی لاشوں کو جناح ہسپتال کے مردہ خانے منتقل کیا گیا۔ شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے ضرور لیے گئے لیکن اہلخانہ نشانیاں بتا کر اسپتال سے لاشوں کو تدفین کے لیے لے گئے۔ جناح ہسپتال کے ایم ایل او ڈاکٹر کلیم شیخ نے ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ لاشوں کی حوالگی کا معاملہ کسی بھی جھگڑے کے بنا پر مکمل کرلیا گیا۔

سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک بھی اس سانحہ پر جناح ہسپتال پہنچے اور ورثاء سے تعزیت کی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما نے اس واقعے کو وفاقی حکومت کی ناکامی اور طالبانائزیشن کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے ایک بار پھر طالبان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ دہرایا۔

ورثاء کی آہ و بکا، سکیورٹی اداروں کی وضاحتیں اور حکومت کی دعووں کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ دہشتگردوں نے آج ایک بار پھر کراچی ایئر پورٹ کے عقب میں واقع اے ایس ایف کی ٹرینگ آکیڈمی پر تازہ حملہ کیا۔ حملہ آور جو موٹرسائیکل پر سوار تھے فائرنگ کرکے فرار ہوگئے۔ حالیہ واقعے کے حوالے سے سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تضاد پایا جاتا ہے۔ آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق حملہ آور تین سے چار تھے جبکہ دوسری جانب پاکستان رینجرز کے ترجمان کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد دو تھی۔ پاکستان رینجرز نے تو اتنا تک کہہ دیا کہ یہ دہشت گردی کا نہیں بلکہ فائرنگ کا واقعہ تھا۔

کل سے اب تک 29 جانوں کے ضیاع اور 24 زخمیوں کے بعد بھی صورتحال نازک نظر آتی ہے۔ سکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن نے عوام میں اعتماد کی فضا کو ضرور قائم کیا ہے لیکن دہشت گردوں کا کوئی بھی حملہ اس فضا کوتبدیل کرسکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں