1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی: بس آئیل ٹینکر حادثہ، 57 افراد کی ہلاکت کی تصدیق

عدنان اسحاق11 جنوری 2015

پاکستان کے جنوبی شہر کراچی کے قریب بس اور آئل ٹینکر کے حادثے میں ہلاک ہو نے والوں کی تعداد 57 ہو گئی ہے۔ حکام کے مطابق لاشیں اس قدر مسخ ہو چکی ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر پہچان ممکن نہیں۔

تصویر: ASIF HASSAN/AFP/Getty Images

صوبہ سندھ کی انتظامیہ نے بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والی بس کراچی سے شکار پور جا رہی تھی کہ گلشن حدید کے پاس ایک آئل ٹینکر سے جا ٹکرائی۔ ایک سینیئر پولیس افسر راؤ محمد انور نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق بس غلط سمت سے آنے آئل ٹینکر سے ٹکرائی اور فوراً ہی شعلوں کی لپیٹ میں آ گئی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حادثے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آیا آئل ٹینکر کے ڈرائیور کی غلطی تھی یا بس ڈرائیور نے بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔

کراچی کے جناح ہسپتال میں ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ ’’ انہیں 57 لاشیں پہنچائی گئی ہیں۔ بس اور آئل ٹینکر مکمل طور پر چل کر راکھ ہو گئے ہیں اس وجہ سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے‘‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کم از کم چھ بچے بھی اس حادثے کا شکار ہوئے ہیں،کیونکہ یہ لاشیں خواتین سے چپکی ہوئی ہیں اور شاید یہ ان بچوں کی مائیں تھیں۔ ڈاکٹر جمالی کے بقول ’’ ان کی شناخت تقریباً نا ممکن ہے اور صرف ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد ہی مرنے والوں کے بارے میں کچھ بتایا جا سکےگا۔‘‘

ذرائع کے مطابق بس پر گنجائش سے زیادہ لوگ یعنی ساٹھ مسافر سوار تھے۔ کراچی کے ایک رہائشی گل حسن نے بتایا کہ اس حادثے میں اس کے نو رشتہ دار ہلاک ہوئے ہیں اور ان میں 80 سالہ خاندانی سربراہ اور دو بچے شامل ہیں۔’’ یہ تمام لوگ بدقسمت بس میں سوار تھے اور میں اب انہیں پہچان بھی نہیں پا رہا۔‘‘

گزشتہ تین ماہ کے دوران صوبہ سندھ میں رونما ہونے والا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل نومبر میں خیر پور کے قریب ایک بس کوئلہ لے جانے والے ایک ٹرک سے ٹکرا گئی تھی۔ اس حادثے میں بچوں اور خواتین سمیت پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پولیس نے اس واقعے کی ذمہ داری ہائی وے کی خراب حالت اور انتباہی نشان کی عدم موجودگی پر عائد کی تھی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں