کراچی خونریزی، سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت
26 اگست 2011چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں کراچی کی صورتحال پر از خود نوٹس کی سماعت کرنے والے5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے آئی جی اور چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹس پیش کی گئیں۔
ان رپورٹس کے مطابق اب تک کراچی میں 117 ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ان کے خلاف 179 چالان عدالتوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایک 1162 جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں حکومت سندھ کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک نے کراچی میں فوج بلانے کے متعلق دائر درخواست کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کراچی کے حالات پر ججوں کو خفیہ بریفنگ دینے کے لیے تیار ہیں۔ بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فتح ملک نے کہا، ’’فوج کو اور بھی کافی کام ہے سرحدوں پر ۔۔۔ اگر آپ سرحد سے فوج ہٹا کر شہروں اور گلی کوچوں میں لے آئیں گے، تو پھر فوج یہاں سے نکلے گی نہیں۔۔۔رینجرز کیا ہے، یہ ایک فوج کا ہی حصہ ہے لیکن وہ سول کام کر رہی ہے، کافی ہے ہمارے لیے ۔۔۔ فوج کو طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا یہ ذہن بنا ہوا ہے کہ وہ انٹرنیشنل فورمز کو اپیل کریں کہ اب ہمیں فوج مار رہی ہے۔‘‘
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سندھ حکومت کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان میں ان گروہوں کی نشاندہی نہیں کی گئی، جو بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کراچی کے حالات کے بارے میں جامع رپورٹ پیش کریں۔ حکومت سندھ کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے بھی عدالت کو بتایا کہ کراچی میں فوج بلانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ سیاسی معاملہ ہے۔ تاہم انہوں نے عدالت کے اس فیصلے کو سراہا کہ وہ کراچی کے حالات سے متعلق مقدمے کی سماعت 29 اگست سے کراچی میں کرے گی۔ عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ عدالت کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے گواہان کو خصوصی تحفظ فراہم کرے۔
’’صرف ججوں، وکلاء اور کورٹس کو تحفظ کی ضرورت نہیں ہے، بہت سے لوگوں کو ہے اب یہ جو بے چارے لوگ مارے جا رہے ہیں، جو عینی شاہد ہیں، وہ کیسے آئیں گے اور گواہی دیں گے۔ شہادت کے بغیر تو عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔ اب جو لوگ ڈر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بھاڑ میں جائیں باقی سب میں کیوں اپنی ، اپنے بچوں اور خاندان کے لیے مصیبت کھڑی کروں۔ کل آ کر میرے پیچھے ہی نہ پڑ جائیں۔ اگر آپ ان کو تحفظ فراہم نہیں کرتے، تو ممکن ہے کہ شہادتیں ملنے میں مشکلات پیدا ہوں۔
دریں اثناء اے این پی اور ایم کیو ایم کی جانب سے اس مقدمے میں فریق بننے اور عدالت کی معاونت کے لئے درخواستیں دی ہیں۔ تاہم حکومت سندھ کے موقف کے برعکس اے این پی کراچی میں فوج طلب کرنے کے حق میں ہے۔ اس حوالے سے اے این پی کے ترجمان زاہد خان نے بتایا، ’’یہ تو ہمارا ابتداء سے مطالبہ تھا چونکہ کراچی کی صورتحال ایسی کیونکہ وہاں پر موجود لاء انفورسز ایجنسیز نے ابھی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل نہیں کیں۔ لوگوں کو کاٹا جا رہا ہے۔ فوج کے لیے تو ہم نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت سول حکومت کو چاہیے کہ وہ فوج کو طلب کرے۔‘‘
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عاطف توقیر