1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی سرکلر ریلوے، کل آج اور کل

12 جون 2013

تقریباً دو کروڑ آبادی والا پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ابھی تک مناسب پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولیات سے محروم ہے۔ نئی سیاسی حکومت کراچی سرکلر ریلوے پراجیکٹ کو ایک بار پھر زندہ کرنے کی متمنی ہے۔

تصویر: DW/Raffat Saeed

کراچی شہر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو بہتر سفری سہولت فراہم کرنے اور سڑکوں پر ٹریفک کے اژدھام سے نمٹنے کے لیے پاکستان ریلوے کی جانب سے ماضی میں شروع کیے جانے والے منصوبے، کراچی سرکلر ریلوے پراجیکٹ کاایک بار پھر آغاز کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

یہ منصوبہ 1969ء میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا جس کے تحت ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں۔ اس سہولت سے سالانہ ساٹھ لاکھ افراد فائدہ اٹھایا کرتے تھے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس سروس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور 1970ء سے 1980ء تک کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ 104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں۔ ان میں سے80 ٹرینیں مین ٹریک پر جبکہ 24 ٹرینیں لوکل لُوپ ٹریک پر چلا کرتی تھیں ۔

کراچی سرکلر ریلوے کامنصوبہ 1969ء میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھاتصویر: DW/Raffat Saeed

1990ء کی دہائی کے آغاز سے بعض وجوہات کی بنا پر ریلوے کو ہونے والے مالی نقصانات کے باعث کئی ٹرینوں کو بند کر دیا گیا۔ ناقدین کے مطابق اس کی وجہ نہ صرف ایسے افراد کو ریلوے کی وزارت دینا تھا جو خود ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک تھے بلکہ کراچی کی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کی طرف سے رشوت اور دباؤ کے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے عوامی بھلائی کے اس منصوبے کو ناکام کر دیا گیا اور آخر کار 1999ء میں حکومت نے مکمل طور پر اس سروس کو بند کر دیا۔

سرکلر ریلوے منصوبے کا احیاء

شہر کی بڑھتی آبادی اور ضروریات کے باعث اس منصوبے کی متعدد بار فزیبیلٹی رپورٹ تیار کی گئیں اور کئی فورمز پر ان کی منظوری بھی دی گئی، لیکن نامعلوم وجوہات پر اسے کبھی عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔

تاہم 2005ء میں جاپان کے اشتراک سے کراچی سرکلر ریلوے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس منصوبے کے لیے جاپان نے دو ارب 40 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کی بھی پیشکش کی۔ منصوبے کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کے 50 کلومیٹر طویل ٹریک نے شہر کے مختلف اہم حصوں اور شاہراہوں کو ملانا تھا۔

شیڈول کے مطابق اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز 2010ء میں کیا جانا تھا اور اس کی تکمیل 2014ء میں ہونا تھی۔ ایک بار پھر یہ منصوبہ بعض وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہو گیا۔ کالم نگار اور اس منصوبے کو ملکی اور غیر ملکی سطح پر اجاگر کرنے والے سینیئرصحافی عرفان صدیقی سمجھتے ہیں کہ اس کی بڑی وجہ کرپشن تھی: "اس منصوبے میں تاخیر کی وجوہات میں سندھ کے اندرونی مسائل کے علاوہ جاپان کی طرف سے اس بات کو یقینی بنانے کا عمل بھی ہے کہ اس کی دی ہوئی امداد کرپشن کی نذر نہ ہو اس لیے وہ سخت مانیٹرنگ کر رہے تھے جس کی وجہ سے سندھ گورنمنٹ ہاتھ ڈالتے ہوئے جھجک رہی تھی۔ اس کے علاوہ جاپان حکومت کی طرف سے شرط تھی کہ جو لوگ سرکلر ریلوے کی اراضی پر ناجائز طور پر قابض ہیں انہیں حکومت قبضہ ختم کرنے کے عوض معاوضہ دے یا اس کے بدلے زمین دے۔ اس وجہ سے سندھ کے حکمران طبقے نے اپنے لوگ ان زمینوں پر بٹھا دیے تھے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ مافیا بھی اس منصوبے میں حائل تھا کیونکہ وہ نہیں چاہ رہا تھا کہ یہ پایہ تکمیل تک پہنچے۔"

نئی صوبائی حکومت تکمیل کے لیے پرعزم

11 مئی2013ء کو ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک بار پھر اس منصوبے کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

عرفان صدیقی کے خیال میں اس مرتبہ یہ بیل منڈھے چڑھ ہی جائے گی: "اب مسئلہ حکمرانوں اور سندھ حکومت کی ساکھ کا ہے۔ اگر اس مرتبہ یہ مکمل نہ ہوا تو پنجاب کے مقابلے میں سندھ حکومت اپنی عوام میں غیر مقبول ہو جائے گی۔ اس وجہ سے صدر آصف علی زرداری کے علاوہ وزیراعلی سید قائم علی شاہ اور اویس مظفر ٹپی صاحب بذات خود اس منصوبے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔"

۔گ۔

سرکلر ریلوے کا ترمیم شدہ منصوبہ

سندھ حکومت کی طرف سے 2.6 بلین ڈالرز کے ترمیم شدہ منصوبے کی منظوری دی گئی ہے۔ ان میں سے دو بلین جاپان جبکہ 600 ملین ڈالرز سندھ حکومت کی جانب سے فراہم کیے جائیں گے۔ ترمیم شدہ پلان کے مطابق 50 کلومیٹر طویل ٹریکس پر 246 گاڑیاں چلائی جانی ہیں۔ ان میں سے ہر ٹرین میں 1200 سے زائد مسافروں کی گنجائش ہوگی۔ جدید سہولیات سے آراستہ ٹرین کے کُل 23 اسٹیشنز ہوں گے جہاں ہر تین منٹ بعد ایک ٹرین آئے گی اور سات لاکھ افراد ان ٹرینوں پر سفر کریں گے۔

منصوبے کے مطابق یہ ٹرینیں شہر کے مضافاتی علاقوں سے صدر اور صنعتی علاقوں تک سفر کرنے والے ملازمین کے سفر کو خاص طور پر آرام دہ اور مختصر بنادیں گی۔ جاپانی کمپنی ابتدائی دو برسوں تک اس منصوبے کو چلانے کی پابند ہوگی اس دوران پاکستان ریلوے کے حکام کو تربیت دی جائے گی اور دو برس بعد جاپانی حکام کراچی سرکلر ریلوے کا انتظام پاکستان ریلوے کے حوالے کر دیں گے۔

اعلان کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کا نیا روٹ نیپا اسٹیشن، گلشن اقبال سے نارتھ ناظم آباد، لیاری، مچھرکالونی سے ہوتاہوا کالا پُل کے قریب مہران اسٹیشن اور پھر وہاں سے پی اے ایف میوزیم شاہراہ فیصل سے ہوتے ہوئے پھرنیپااسٹیشن کولنک کرے گا۔ اس سروس کو مزید مؤثربنانے کے لیے لانڈھی،اسٹیل ٹاؤن،سرجانی ٹاؤن اور دیگر مقامات سے بسیں بھی چلائی جائیں گی جنہیں روٹ کے حساب سے ریڈ، گرین اور ییلوگروپس میں تقسیم کیا جائے گا۔ یہ بسیں ان علاقوں کے مسافروں کو سرکلر ریلوے کے قریبی اسٹیشن تک پہنچائیں گی۔ سندھ حکومت کے اعلان کے مطابق رواں برس نومبر یا دسمبر تک اس پراجیکٹ پر باقاعدگی کے ساتھ کام شروع کیا جائے گا۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ،کراچی

ادارت: عابد حسین

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں