کراچی میں آگ و خون کا کھیل جاری، 75 ہلاک
20 اگست 2011جمعہ کو اورنگی ٹاؤن میں دو درجن کے قریب مسلح موٹر سائیکل سواروں نے پولیس کی بس پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار ہلاک اور 30 کے قریب زخمی ہو گئے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جھڑپوں کا آغاز بدھ کو حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رکن پارلیمان واجا احمد کریم داد کی ہلاکت کے بعد شروع ہوا تھا۔ ابھی تک کسی نے بھی اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی مگر اس میں ایک لسانی تنظیم کے ملوث ہونے کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے۔
ایک اعلٰی پولیس اہلکار عامر فاروقی نے کہا، ’’چار روزہ تشدد میں ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد 75 ہو گئی ہے۔ ان میں سے سات افراد ہفتے کو ہلاک ہوئے جبکہ جمعہ کو 22 افراد مارے گئے تھے۔‘‘
ایدھی سروس کے ایک ترجمان فراز علی نے بتایا کہ رواں سال کراچی میں نسلی اور سیاسی تشدد کے واقعات میں 1,439 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
فوج بلانے کے مطالبات
تشدد کے واقعات میں کوئی کمی نہ آنے کے سبب شہر میں فوج طلب کرنے کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں متحدہ قومی موومنٹ اور اس کی حریف جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بھی شہر کو فوج کے حوالے کرنے کے مطالبات کیے تاکہ جرائم پیشہ گروہوں اور سیاسی جماعتوں کے عسکری بازوؤں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
شہر میں جاری تشدد کی کارروائیوں سے کاروباری شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کراچی کے ایوان صنعت و تجارت سمیت تمام اہم کاروباری اور تجارتی ایسوسی ایشنوں کا بھی یہی مطالبہ ہے، تاہم فی الوقت نظر یہ آ رہا ہے کہ فوج سیاسی تنازعات میں نہیں پڑنا چاہے گی۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کے منصوبوں کے حوالے سے کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج اس سلسلے میں سویلین حکومت کے احکامات پر عملدر آمد کرے گی۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل نے کہا، ’’فوج پہلے ہی مختلف جگہ مصروف ہے اور اس کا مزید جگہ تعیناتی کا امکان کم ہے۔‘‘
کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر مطاہر احمد نے کہا، ’’فوج کسی سیاسی ایجنڈے پر کام نہیں کرنا چاہے گی۔ فوج کے علاوہ خود حکومت بھی اسے بلانا نہیں چاہتی کیونکہ پھر اس کی ساکھ کو دھچکا لگے گا۔‘‘
کراچی میں جاری بدامنی کی لہر سے ملک کے اس مالیاتی مرکز اور قومی خزانے میں سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرانے والے شہر کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عاطف بلوچ