1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں بھتہ خوری رواج پاتی ہوئی

عابد حسین2 جولائی 2013

کراچی کو پاکستان کا مالیاتی مرکز خیال کیا جاتا ہے لیکن اب اس شہر میں امن و سلامتی کی گھمبیر ہوتی صورت حال کے ساتھ ساتھ جبری رقم کی وصولی یا بھتہ خوری کی وارداتیں عام ہونے لگی ہیں۔

تصویر: Karachi Urban Transport Company

کراچی کے کارباری حلقے بھتہ خوری میں اضافے پر شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ کراچی کے چھوٹے یا درمیانے درجے کے تاجروں اور دوکانداروں کو کسی بھی وقت جبری رقم کی ادائیگی کا پیغام وصول ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی ایک تاجر محمد فیضان اُللہ اپنی سٹیشنری کی دکان پر بیٹھا تھا کہ ایک آدمی نے آ کر اسے ایک فون نمبر اور پستول کی گولی دی۔ کاغذ پر دو لاکھ پاکستانی روپے فراہم کرنے کی ہدایت درج تھی۔ یہ دونوں چیزیں لانے والے شخص نے فیضان اُللہ سے کہا کہ فون کر کے رقم ادا کرنے کا بتا دو ورنہ دوسری صورت میں تم گولی کا مطلب سمجھ سکتے ہو۔

کراچی میں بھتہ خوری کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

کراچی میں بھتہ خوری کی وارداتوں میں تسلسل کی وجہ سے مجموعی معاشی سرگرمیاں کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور کاروباری حلقے سرمایہ کاری کے نئے مواقع تلاش کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ اس باعث کاروبار کرنے والے اب اپنے خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ سکیورٹی کی خراب صورت حال کی مناسبت سے یہ بھی اہم ہے کہ کئی تاجر اپنا کاروبار اور گھر بار پاکستان کے دوسرے صوبوں کے علاوہ دبئی، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں میں منتقل کر چکے ہیں۔

کراچی شہر پاکستان کی پچیس فیصد اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز و محور ہے۔ اس شہر میں عدم سلامتی کی صورت حال پاکستان کے موجودہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک بڑا چیلنج خیال کیا جاتا ہے۔ کاروباری حلقوں کو امید ہے کہ نواز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کراچی شہر کی سکیورٹی اور لا اینڈ آرڈر کی ابتر صورتحال کا خاص طور نوٹس لیتے ہوئے بہتر فیصلے کریں گے۔

پولیس کراچی کی بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم اور دوسری سیاسی پارٹیوں کے ورکروں پر بھتہ وصول کرنے کا شبہ ظاہر کرتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

رواں مہینے کے دوران اسلامی کیلینڈر کا نواں مہینہ رمضان شروع ہو رہا ہے اور کراچی میں اس مقدس مہینے کے دوران خاص طور پر بھتہ خوری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سیٹیزن پولیس رابطہ کمیٹی کے سربراہ احمد چنائے کا کہنا ہے کہ رواں برس کے دوران بھتہ خوری کی وارداتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ سیٹیزن پولیس رابطہ کمیٹی کے سربراہ چنائے کا کہنا ہے کہ رواں برس جنوری سے وسط جون تک پولیس کے پاس جبری وصولی کی 630 شکایتیں مختلف پولیس اسٹیشنوں میں جمع کروائی گئی ہیں جب کہ گزشتہ برس ایسی وارداتوں کی کل تعداد 589 تھی۔ ان واقعات میں کئی افراد نے رپورٹ درج کروانے کے بعد بھتہ ادا کرنے سے انکار بھی کیا ہے۔

جبری رقم کی وصولی کے واقعات نے کراچی کے مکینوں کے دلوں میں جو خوف و ہراس پیدا کیا وہ ظاہراً شہر کے تشخص کو دھندلا رہا ہے۔ کراچی کے تاجروں کا یہ کہنا ہے کہ بھتہ ادا کرنا اب کراچی میں کاروبار کرنے کا حصہ بن گیا ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے لیے کام کرنے والے سب سے زیادہ بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ پولیس نے بھتہ خوری میں دوسری سیاسی جماعتوں کے ورکروں کے ملوث ہونے کا شبہ بھی ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران متحدہ قومی موومنٹ کے اختیار کو دوسرے مسلح گروپوں اور انتہا پسندوں نے چیلنج کر دیا ہے اور اب یہ بھی بھتہ خوری کی وارداتوں میں شامل ہو گے ہیں۔ کراچی میں ہلاکتوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ ایک اور سنگین مسئلہ ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں