1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں بیسیوں ہندو جوڑوں کی اجتماعی شادی

شادی خان سیف، کراچی5 دسمبر 2013

ہندو مذہب کے پیروکار پاکستان میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

تصویر: DW/S. Khan

صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ابھی حال ہی میں پاکستان بھر میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ہزار ہا مرد، خواتین، بچے اور بزرگ جمع ہوئے اور اس اجتماع کا مقصد تھا، درجنوں نوجوان جوڑوں کو ازدواجی بندھن میں باندھنا۔

ہندو برادری کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہندو کونسل نے یہاں 65 ہندو جوڑوں کی اجتماعی شادی کا انتظام کیا تھا تقریب کے لیے چنے گئے Young Men's Christian Association کےمرکز کے وسیع و عریض میدان میں ہر جگہ ہندو ثقافت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے، موسیقی کی دھن اور خوش لباس شرکاء کے چہروں پر بکھری مسکراہٹوں نے ماحول کو بہت پرکشش بنا رکھا تھا۔ مکمل مذہبی و ثقافتی پیرائے میں اجتماعی شادی کی یہ تقریب سجائی گئی تھی۔

ہندو برادری کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہندو کونسل نے اس اجتماعی شادی کا انتظام کیا تھاتصویر: AP

اسٹیج پر بیٹھے پنڈت مہاراج پسرام کھوجہ نے مہورت کا وقت مکمل ہوتے ہی بھجن پڑھنا شروع کیے اور اس گھڑی کے انتظار میں بے چین بیٹھے جوڑوں سے اگنی کے پھیرے لگانے کو کہا۔ 65 مقامات پر لگائی گئی چھوٹی چھوٹی آگ کے گرد پھیرے لگنا شروع ہوئے۔ ابتدائی تین پھیروں میں دلہنیں آگے اور دلہے پیچھے رہے جبکہ آخری پھیرے میں قیادت دلہوں نے قیادت سنبھال لی۔ اس تقریب میں دلہوں اور دلہنوں کے ساتھ ان کے والدین اور دیگر عزیز و اقارب بھی موجود تھے۔

اس موقع پر کئی اہم حکومتی شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہبی ہم آہنگی محمد امین الحسنات، وزیر اعلیٰ بلوچستان عبد المالک اور کراچی کی تاجر برادری نے نئی زندگی کے سفر کا آغاز کرنے والے ان جوڑوں کے لیے نقد امداد کا بھی اعلان کیا۔ ہندو کونسل کی جانب سے سلائی مشینیں اور دیگر ضروری اشیاء کے تحائف تقسیم کیے گئے۔

وزیر مملکت امین الحسنات نے پاکستان میں قیام امن اور رواداری کے فروغ کی دعا کرتے ہوئے اس تقریب کو انتہائی احسن کاوش قرار دیا، ’’ہندو کونسل کے ارکان نے اتنی محنت کی اور 65 گھر آباد کیے، میں امید کرتا ہوں کہ دیگر اقوام بھی اس قسم کی کوشش کریں گی۔‘‘

ہندو کونسل کے ذرائع کے مطابق چھ برس قبل اجتماعی شادیوں کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ اوائل میں محض چند ہی جوڑوں کی شادیاں کرائی گئی تھیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت خاصی مقبول ہوچکی ہے۔ بیشتر جوڑے سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں کے باسی تھے جہاں غربت کے باعث شادی کے مالی اخراجات پورے کرنا ایک سنگین مسئلہ ہے۔

ہندو کونسل کے ذرائع کے مطابق چھ برس قبل اجتماعی شادیوں کا یہ سلسلہ شروع کیا گیا تھاتصویر: Reuters

ہندو کونسل کے صدر جیٹھ آنند نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ان کی تنظیم ملک میں بسنے والے قریب 80 لاکھ ہندوؤں کی نمائندہ جماعت ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ہندو ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان میں رہتے ہوئے کسی خاص مشکل کا سامنا ہے، تو جیٹھ آنند کا جواب تھا کہ جو مسائل ملک کی باقی 93 فیصد آبادی کو درپیش ہیں، اقلیتی 7 فیصد آبادی کو بھی وہی مسائل درپیش ہیں۔ ’’یہ ملک سوھنی دھرتی ہے، تمام دنیا سے اچھا مگر یہاں انصاف کی کمی ہے،‘‘

ان کے بقول ہندو برادری کے بہت سے نوجوان تلاش روزگار کے سلسلے میں حالیہ چند برسوں میں بیرون ملک چلے گئے ہیں اور ان کے بوڑھے والدین یہاں تنہائی کا شکار ہیں۔

اجتماعی شادی کی تقریب میں شریک نوجوان لڑکی بندیا نے بتایا کہ وہ اپنی چچا زاد بہن تلسی کی شادی میں آئی ہے۔ ’’گھر کے مقابلے میں یہاں اس طرح اجتماعی شادی میں بہت مزہ آ رہا ہے اور اپنی ہی برادری کے بہت سے افراد دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ‘‘

ہزاروں شرکاء کے ساتھ اجتماعی شادی کی یہ تقریب بڑے خوشگوار انداز میں تکمیل کو پہنچی۔

اس سے قبل ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ہندو کونسل کے رہنماؤں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے سیاسی جماعتوں کی طرف سے نامزدگی کے طریقہء کار کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے آزادانہ انتخاب کی ضرورت پر زور دیا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں