آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام دسویں عالمی اُردو کانفرنس کا آغاز ہوگیا۔ پانچ روز جاری رہنے والی اس کانفرنس میں دُنیا بھر سے آئے ہوئے دانش ور، شعراء اور ادیب مختلف موضوعات پر مقالات پیش کریں گے۔
اشتہار
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہمانِ خصوصی صوبائی وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ نے کہاکہ سیاست نے برصغیر کو توڑا تھا اور اُردو نے برصغیر کو جوڑ رکھا ہے۔ ’’ہم ہر طرح کی شدت پسندی کا مقابلہ ادب و ثقافت سے کرسکتے ہیں۔ دہشت گردوں اور تنگ نظروں کے خلاف تخلیق کاروں کا بڑا کردار ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہاکہ جس کراچی کے کونے پر زہرہ نگاہ سمیت دیگر شعراء بیٹھے ہوں، لندن میں رضا علی عابدی ہوں، جرمنی میں عارف نقوی ہوں اور دہلی میں شمیم حنفی ہوں تو اُردو کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے آرٹس کونسل کی انتظامیہ کو مبارک باد دی کہ انہوں نے گزشتہ 10سالوں سے اُردو کا میلہ بہت خوبصورت طریقے سے سجا رکھا ہے اور مختلف علاقوں سے آنے والے شعراء اور ادیبوں کو کراچی میں جمع کرکے محبت کے پیغام کو عام کیا ہے۔
صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ کا ’’عہد ِمشتاق احمد یوسفی‘‘ کے حوالے سے خطبہء استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آج ہم سب مشتاق احمد یوسفی کے عہد میں زندہ ہیں۔ ان کی طبیعت کافی ناساز ہے ہم سب کی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی عطا فرمائے۔‘‘
پيمرا صرف نفرت آميز مواد کے خلاف کارروائی کرتی ہے، ابصار عالم
04:30
انہوں نے کہاکہ مشتاق احمد یوسفی نے اُردو ادب کی جس طرح خدمت کی ہے وہ سب کے سامنے ہے، ’’وہ اُردو کے آخری بڑے ادیب ہیں ان کی تحریروں میں جو شگفتگی نظر آتی ہے، وہ قاری کو بے اختیار مسکرانے پر مجبور کردیتی ہے۔‘‘
اس موقع پر احمد شاہ کی دعوت پر ناپا کے چیرمین اداکار وممتاز براڈ کاسٹر ضیاء محی الدین کا حاضرین نے کھڑے ہوکر استقبال کیا۔ ضیاء محی الدین نے ’’عہد ِمشتاق احمد یوسفی ہمارا اعزاز‘‘ کے عنوان سے مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریروں سے کچھ اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے، جس پر حاضرین نے بھرپور داد دی اور بہت محظوظ ہوئے۔ اس موقع پر ممتاز دانشور افتخار عارف، شمیم حنفی، امینہ سید اور دیگر بھی موجود تھے۔
کراچی میں چھٹی عالمی اردو کانفرنس
کراچی نے لگاتار چھٹے سال عالمی اردو کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ آئے دن کی بد امنی اور دہشت گردی سے متاثرہ اِس شہر کے باسی تمام تر تشدد کے باوجود اردو زبان سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام اٹھائیس نومبر سے لے کر یکم دسمبر تک منعقد ہونے والی اس چار روزہ کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے آئے ہوئے مندوبین شریک ہوئے، جن کا کہنا تھا کہ ایسے نامساعد حالات میں اتنی شاندار کانفرنس کا انعقاد کراچی کے شہریوں کے بلند حوصلے کی غمازی کرتا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
کراچی نے لگاتار چھٹے سال عالمی اردو کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے ایک دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ آئے دن کی بد امنی اور دہشت گردی سے متاثرہ اِس شہر کے باسی تمام تر تشدد کے باوجود اردو زبان سے گہری جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ معروف شاعر امجد اسلام امجد کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
کانفرنس کے پہلے دن جمعرات 28 نومبر کو افتتاحی اجلاس میں سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید قائم علی شاہ مہمان خصوصی تھے جبکہ مجلسِ صدارت اردو ادب کی ان شخصیات سے مزین تھی، جن کی جگمگاہٹ چاروں دن اس کانفرنس کی تقریبات کو روشن کرتی رہی۔
تصویر: DW/R. Saeed
چھٹی عالمی اردو کانفرنس میں شریک رضا علی عابدی (دائیں) اور شمیم حنفی۔ بھارت سے آئے ہوئے نقاد اور ادیب شمیم حنفی کے بقول اردو زبان جن اقدار کی نشاندہی کرتی ہے، وہ تہذیب اور شعور سے وابستہ ہیں اور گو کہ چار دنوں میں زبان سے وابستہ چیزوں کا احاطہ مشکل تھا مگر اردو زبان سے محبت کرنے والوں کا اجتماع دیکھ کر خوشی ہوئی۔
تصویر: DW/R. Saeed
پاکستان کی معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے۔ اردو کانفرنس کی چہل پہل دیکھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ اردو کے دلدادہ عہد حاضر میں بھی اس زبان کو ہمعصر رکھنے پر گامزن ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
اس کانفرنس کے مختلف اجلاسوں میں کئی نامور ہستیوں کو سپاس پیش کیا گیا، جن میں فرمان فتحپوری، محمد علی صدیقی، محمود واجد، سراج الحق میمن اور داود رہبر بھی شامل تھے لیکن پروگرام کا جو حصہ سب پر بازی لے گیا، وہ تھا معروف ادیب مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ بتائی گئی ایک شام۔
تصویر: DW/R. Saeed
اس کانفرنس کے دوسرے دن کا آغاز معاصر شعری رجحانات پر ہونے والے اجلاس سے ہوا، جس کی صدارت ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کی۔ اپنے خطاب میں امریکا سے آئے ہوئے اس شاعر اور دانشور نے کہا کہ عہد ساز شاعری عصری رجحانات سے ہی جنم لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسائی شاعری کراچی شہر کی پیداوار ہے اور اب بھارتی شاعری میں بھی اس کے اثرات پائے جانے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
اس کانفرنس کے دوران ناول نگار عبداللہ حسین کے ساتھ منائی جانے والی ایک شام میں ناول نگار محمد حنیف نے بھی شرکت کی اور پاکستان کے اس عہد ساز ناول نگار کے فن پر گفتگو کی۔
تصویر: DW/R. Saeed
کانفرنس کے آخری دن اردو افسانے کی صدی پر ایک تفصیلی اجلاس ہوا، جس کی صدارت ناول نگار انتظار حسین، اسد محمد خان، حسن منظر اور مسعود اشعر نے کی۔ مقررین میں اطہر فاروقی، زاہدہ حنا، ڈاکٹر آصف فرخی اور اخلاق احمد بھی شامل تھے۔ انتظار حسین خطاب کرتے ہوئے۔
تصویر: DW/R. Saeed
9 تصاویر1 | 9
ہندوستان سے آئے ہو ئے مہمان دانش ور شمیم حنفی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’دس سال سے میں اس مجمع کو دیکھ رہا ہوں۔ زبان و ادب اور سنجیدہ مسائل پر گفتگو کے لیے یہ زمانہ سازگار ہے۔اس طرح کی کانفرنسوں میں ادب اور ثقافت کو تقویت ملتی ہے۔
دسویں عالمی اُردو کانفرنس میں شریک مہمانوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس کانفرنس کے لیے مختص ہال کی گنجائش کم پڑ گئمیں جگہ کم رہ گئی اور باہر موجود افراد کو پروجیکٹر کی مدد سے کانفرنس کی کارروائی براہ راست دکھائی جاتی رہی۔
پہلے دن کا اختتام پر آہنگ خسروی میں معروف قوال ایاز فرید اور ابو محمد نے امیر خسرو کا کلام پیش کرکے سماں باندھ دیا۔