کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن
18 جنوری 2011آپریشن کے اختتام پر علاقہ مکینوں نے الزام لگایا کہ رینجرز نے بے گناہ لوگوں کو حراست میں لیا ہے اور جرائم پیشہ افراد پہلے ہی دوسرے مقام پر منتقل ہوچکے ہیں۔
شہرمیں سال نو کے آغاز پر جنوری کے 18 دنوں میں اب تک 90 سے زائد افراد کو قتل کیا جاچکا ہے۔ قتل ہونے والوں میں 32 سیاسی کارکن بھی شامل ہیں۔ کراچی شہر میں قتل و غارت گری پر ملک بھر کی سیاسی جماعتوں نے حکومت سے ناصرف احتجاج کیا ہے بلکہ حکومت کی حلیف جماعت اے این پی نے شہر میں فوجی آپریشن کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
کراچی میں بحالی امن کے لیے فوجی آپریشن تونہ ہوسکا مگر وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے رینجرز اور پولیس کی مدد سے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے شہرکے متاثرہ علاقوں میں محدود کرفیولگاکر کاروائی کا اعلان کیا۔
شہری کرفیو اور آپریشن کی خبر سن کر ہی خوف میں مبتلا ہیں۔ نیم فوجی رینجرز نے اورنگی ٹاون کی فقیرکالونی میں گھر گھر تلاشی شروع کرکے سینکڑوں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا، تاہم گرفتار شدگان میں نہ تو کوئی اہم جرائم پیشہ شخص شامل ہے اور نہ ہی قابل ذکر ناجائز اسلحہ برآمد ہوسکا۔
سات گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کاروائی میں کسی شخص کو علاقے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ ہیلی کاپٹراس علاقے میں نیچی پروازیں کرتے رہے۔ رینجرز حکام کے مطابق پندرہ سو اہلکاروں نے کارروائی میں حصہ لیا۔
وزیر اعلٰی سندھ کی مشیر برائے اطلاعات شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے کہ جہاں ضرورت ہوگی اس قسم کی کاروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کاروائی کو محدود آپریشن کا نام دیا جاسکتا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کسی بھی قسم کے آپریشن سے قبل حکومت کی حلیف جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا تو ان کا جواب تھا کہ اس قسم کی کاروائی کے لیے اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں ہے۔
دوسری جانب اے این پی کے مرکزی رہنما سینیٹر زاھد خان کا کہنا ہے کہ آپریشن کے نام پر بے گناہ لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی کسی بات کا اعتبار نہیں ہے، وہ صرف ایم کیوایم کے وزیر داخلہ ہیں۔ کراچی شہر میں پائیدار امن کے لیے حقیقی جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کرنا ہوگی۔
ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی وسیم اختر کا کہنا ہے کہ کراچی میں جو جرائم پیشہ عناصر سرگرم ہیں وہ ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاھتے ہیں اور اب تک اب کے خلاف کوئی سنجیدہ کاروائی نہیں کی گئی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں محدود آپریشن دراصل دہشت گردی کو روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کیونکہ شہر میں کسی بھی سخت اقدام سے حکومت عدم استحکام کا شکار ہوسکتی ہے۔
باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کے بیانات اور زبانی دعوؤں اور نیم فوجی رینجرز کو آپریشن کے لیے فعال کرنے کے اعلان کے بعد شہر میں ہدف بناکر قتل کرنے کی وارداتوں میں جو کمی آئی ہے اس کی وجہ حکومت کے اقدامات ہرگز نہیں ہیں، بلکہ نامعلوم دہشت گرد ماضی کی طرح شہر میں کشیدگی پیدا کرنے کے بعد خود ہی غیر فعال ہوگئے ہیں۔
ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اورنگی ٹاون کے علاقے فقیر کالونی کا آپریشن بھی محض عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس محدود آپریشن کے آغاز پر اس طرح کی سیاسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: افسراعوان