1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں دہشت گردی کا نشانہ اس بار اسماعیلی برادری

رفعت سعید، کراچی13 مئی 2015

کراچی میں آج بدھ تیرہ مئی کے روز دہشت گردی کی جو نئی ہولناک واردات ہوئی، اس میں نشانہ ملک کی سب سے پرامن لیکن انتہائی بااثر اسماعیلی برادری کو بنایا گیا۔ اس خونریزی میں تینتالیس افراد مارے گئے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/R. Khan

کراچی سے چند کلومیٹر کی مسافت پر آباد الاظہر گارڈن کے رہائشیوں کی ٹرانسپورٹ بس معمول کے مطابق صبح تقریباً سوا نو بجے اس علاقے سے روانہ ہوئی تھی کہ چند منٹ کی مسافت پر موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح دہشت گردوں نے بس کے باہر سے فائرنگ کر کے ڈرائیور کو قتل کر دیا۔ اسی دوران بس رکنے پر تین دہشت گرد بس کے اندر داخل ہوئے اور انہوں نے دو بچوں کو الگ کرنے کے بعد بقیہ مسافروں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

اس حملے میں بس میں سوار 60 میں سے 43 افراد مارے گئے، جن میں 16 عورتیں اور 27 مرد شامل ہیں۔ اس دہشت گردی میں 13 افراد گولیاں لگنے سے زخمی بھی ہوئے، جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے جبکہ بس میں سوار دو خواتین اس اندھا دھند فائرنگ کے باوجود محفوظ رہیں۔ فائرنگ میں زخمی ہونے والے افراد میں سے ہی ایک شخص آہستہ آہستہ یہ بس چلا کر شہر کے میمن کمیونٹی ہسپتال تک لایا، جس کے بعد اس خوفناک حملے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔

جائے وقوعہ سے ملنے والے انگریزی اور اردو زبانوں میں دھمکی آمیز پمفلٹتصویر: DW/R. Saeed

عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں کی تعداد چھ تھی، جو تین موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ انہوں نے پولیس کی وردیاں پہن رکھی تھیں جبکہ تفتیشی ماہرین کو جائے وقوعہ سے انگریزی اور اردو زبانوں میں لکھے گئے ایسے دھمکی آمیز پمفلٹ بھی ملے ہیں جن پر شام اور عراق میں سرگرم سنی عسکریت پسندوں کی تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے مقامی حامیوں کی جانب سے اس طرح کے مزید حملوں سے خبردار بھی کیا گیا ہے۔

پولیس نے اس واردات میں ملوث دہشت گردوں کی تلاش شروع کردی ہے اور مختلف ٹیمیں جائے وقوعہ اور حملے کا نشانہ بننے والی بس سے شواہد جمع کر رہی ہیں۔ تفتیشی ماہرین کے بقول اس حملے میں دہشت گردوں نے نو ملی میٹر کے پستول اور کلاشنکوف رائفلیں استعمال کیں۔

سندھ پولیس کے آئی جی، ڈی جی رینجرز اور کراچی پولیس کے سربراہ غلام قادر تھیبو بھی جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کے بعد سیدھے ہسپتال پہنچے جہاں انہوں نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں وہی دہشت گرد گروپ ملوث ہے، جس نے حال ہی میں پولیس کے دو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس اور ایک ڈاکٹر کو قتل کیا تھا۔ اس موقع پر صوبائی پولیس کے سربراہ نے کہا کہ پولیس نے پہلے بھی دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے اور اس حملے میں ملوث دہشت گردوں کو بھی جلد ہی ان کے انجام تک پہنچا دیا جائے گا۔

وزیر اعلٰی سندھ قائم علی شاہ اس حملے کے وقت اسلام آباد میں تھے تاہم ان کی ہدایت پر وزیر اطلاعات شرجیل میمن زخمیوں کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے۔

آرمی چیف کراچی پہنچ گئے

کراچی میں آج کے اس سانحے کا اعلٰی ترین سطح پر نوٹس لیا گیا ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنا دورہ سری لنکا ملتوی کر کے کراچی پہنچ چکے ہیں۔ اس موقع پر کراچی کے کور کمانڈر نے آرمی چیف کو اس واقعے کے بارے میں بریفنگ دی جبکہ آج ہی کچھ دیر بعد وزیر اعظم نواز شریف کی کراچی آمد بھی متوقع ہے۔

تصویر: DW/R. Saeed

تجزیہ کاروں کی رائے میں دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کی طرز پر کارروائی کی ہے، جس کا براہ راست اثر پورے کراچی اور پورے ملک پر پڑا ہے۔ کراچی کے تجارتی مراکز ویران ہیں، سڑکیں سنسان ہیں اور ہر شخص خوفزدہ ہے، خصوصاً مئی کے آغاز سے اب تک جس انداز میں دہشت گردی جاری ہے، وہ بالکل نئی اور مختلف طرح کی ہے۔ پہلے پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کا بظاہر مقصد یہی نظر آتا تھا کہ پولیس اپنی نقل و حرکت میں محتاط ہو جائے اور دہشت گردوں کے لیے ایسی کارروائیاں کرنا آسان ہو جائے۔

پرنس کریم آغا خان کا موقف

دنیا بھر میں اسماعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان نے اس سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح معصوم انسانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے، وہ انتہائی حد تک قابل مذمت ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اسماعیلوں کی بڑی تعداد پوری دنیا میں آباد ہے اور ان کا مسلم دنیا میں امن کے لیے کردار انتہائی اہم ہے۔

پاکستان میں اس دہشت گردانہ حملے کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید مذمت کی جا رہی ہے جبکہ کئی سیاستدانوں نے اس واقعے کو حکومتی نااہلی کا نام بھی دیا ہے۔ دوسری جانب ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور تاجر برادری نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے پورے ملک میں یوم سوگ منانے کا اعلان بھی کیا ہے۔

آئی جی سندھ سے متعلق متضاد اطلاعات

کراچی میں صوبائی وزیر اعلٰی کے دفتر کے قریبی ذرائع کے مطابق آج کے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کے بعد صوبائی پولیس کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور کراچی کے پولیس چیف غلام قادر تھیبو کو عبوری طور پر آئی جی پولیس کی ذمے داریاں بھی سونپ دی گئی ہیں۔ یہ بات بدھ کی سر پہر پاکستان کے مختلف نجی ٹیلی وژن چینلز نے بتائی۔ ان رپورٹوں کے چند گھنٹے بعد وزیر اعلٰی قائم علی شاہ کے حوالے سے یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ انہوں نے صوبائی پولیس کے سربراہ کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹایا۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو آج کور ہیڈکوارٹرز کراچی میں اس حملے سے متعلق جو بریفنگ دی گئی، اس میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شریک تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں