1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کراچی میں طالبان کا اثر و رسوخ بڑھتا ہوا

شادی خان سیف، کراچی19 فروری 2014

پاکستان کے شمال مغرب میں کئی علاقوں کے بعد اب کچھ عرصے سے ملک کے کاروباری اور مالیاتی مرکز کراچی میں بھی طالبان عسکریت پسند اپنے قدم جماتے دکھائی دے رہے ہیں۔

تصویر: DW/S.K. Saif

ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے اس شہر میں سماجی اور سیاسی حلقے بالخصوص کراچی کے مضافاتی علاقوں میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے دور رس منفی اثرات کے خلاف خبردار کر رہے ہیں۔

کراچی میں مجموعی طور پر قریب پونے دو کروڑ کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اندرون ملک نقل مکانی کرنے والوں اور قریبی ممالک بھارت، افغانستان، بنگلہ دیش، برما، نیپال اور ایران سے آنے والے تارکین وطن پر مشتمل ہے۔ طالبان تحریک سے براہ راست منسلک عسکریت پسندوں کی شہر میں آمد کا سلسلہ تجزیہ کاروں کے بقول سال 2009ء کے اوائل میں ملاکنڈ آپریشن اور پھر 2011ء کے وزیرستان آپریشن کے بعد شروع ہوا تھا۔

کراچی کے پشتون علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کا اثر دن بہ دن بڑھ رہا ہےتصویر: DW/S.K. Saif

اب ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر کے دس فیصد علاقے ایسے ہیں، جہاں عسکریت پسند سوات یا وزیرستان کی طرح لوگوں کو سخت گیر انداز میں شریعت کی پیروی پر تو مجبور نہیں کرتے مگر ایک مضبوط قوت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ مختلف طریقوں سے رقوم کی وصولی اور اپنے نظریات کے پھیلاؤ کا کام کر رہے ہیں۔

مصنف اور محقق ضیاء الرحمان کے بقول فی الحال کراچی کے مختلف علاقوں میں طالبان کا کنٹرول ابتدائی مرحلے میں ہے، جس دوران وہ نہ صرف ترقی پسندانہ سوچ کی علمبردار سیاسی شخصیات کو نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ مرکزی تحریک طالبان پاکستان کے مقاصد کی راہ میں یہاں سے کھڑی ہونے والی ہر رکاوٹ کو دور کرنے میں بھی سرگرم ہیں۔

وہ کہتے ہیں،''حال ہی میں کی گئی میری تحقیق کے مطابق کراچی کے پشتون علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کا اثر دن بہ دن بڑھ رہا ہے اور میری رائے میں محتاط اندازے کے مطابق شہر کی قریب دس فیصد آبادی ان کے زیر اثر ہے۔‘‘

کراچی شہر کو ملک کے دیگر علاقوں سے ملانے والے تین اہم راستے، جہاں مضافاتی بستیاں قائم ہیں، خاص طور پر طالبان کے زیر اثر ہیں۔ ان علاقوں میں سے اندرون سندھ کی طرف جانے والی قومی شاہراہ کے اطراف قائد آباد اور لانڈھی کے علاقے، سپر ہائی وے پر سہراب گوٹھ کا علاقہ اور جنوب مغرب میں بلوچستان کی سمت بلدیہ ٹاون کا علاقہ طالبان اور دیگر شدت پسند گروپوں کے گڑھ تصور کیے جاتے ہیں۔

ان تمام تر علاقوں میں کچھ باتیں خاصی مشترک ہیں جو انہیں عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ دیگر نوعیت کے جرائم پیشہ عناصر کے لیے بھی محفوظ پناہ گاہیں بنانے میں اہم کراد ادا کرتی ہیں۔ یہ تمام بستیاں شہر کے دیگر خوشحال علاقوں کی نسبت کم ترقی یافتہ ہیں۔ وہاں سڑکوں، تعلیم، صحت اور بجلی پانی کے نظام انتہائی خستہ حالت میں ہیں اور وہاں بسنے والوں کی بڑی تعداد ملک میں داخلی نقل مکانی کرنے والوں کی ہے۔۔

کراچی میں عملی طور پر سکیورٹی انتظامات ناکافی ثابت ہو رہے ہیںتصویر: Reuters

پاکستان میں برسراقتدار مسلم لیگ ن کے صوبائی پارلیمانی لیڈر عرفان اللہ مروت کا تعلق بنیادی طور پر صوبے خیبر پختونخوا سے ہے اور وہ طویل عرصے سے کراچی میں رہتے ہوئے سندھ کی سیاست میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ مروت کراچی میں طالبان کی 'معمولی‘ موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے دیگر جرائم پیشہ گروہوں کو امن و امان کے لیے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''کراچی پر ہر قسم کے مافیا کا کنٹرول ہے، بشمول ایک سیاسی مافیا کے۔ اب بہت آسان ہو گیا ہے کہ کوئی بھی جرم کر کے طالبان کے سر تھوپ دیا جائے۔ کراچی کو بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کا تحفہ کس نے دیا؟ تو یہ باتیں کہ کراچی میں طالبان کا تیس فیصد کنٹرول ہے، گمراہ کن ہیں۔ جن کا نوے فیصد کنٹرول ہے، وہی یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں۔‘‘

رواں برس کے ابتدائی دو ماہ کے دوران شہر میں دو بڑی دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری طالبان اپنے سر لے چکے ہیں۔ جنوری کے تیسرے ہفتے میں شہر کے مغربی علاقے میں ایکسپریس نیوز چینل کی نشریاتی گاڑی پر فائرنگ کر کے اس ٹی وی چینل کے تین ملازمین کو ہلاک کر دیا تھا۔ قبل ازیں طالبان نے کئی ٹی وی چینلز کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔ اس کے بعد فروری کے دوسرے ہفتے میں قومی شاہراہ کے پاس پولیس کمانڈوز کی ایک بس کو سڑک کنارے کھڑی کی گئی ایک گاڑی میں نصب بم سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم دس پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔

مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی ایک بڑی تعداد کے بقول مرکزی سطح پر طالبان کے ساتھ شروع کیے گئے مذاکراتی عمل کے نتائج اور افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء کا پاکستان کے اندر طالبان کی سرگرمیوں پر انتہائی گہرا اثر مرتب ہو گا۔ ان کے بقول فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ اثر منفی ہوگا یا مثبت۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں